حضرت موسیٰ کوہِ طور پر خدا سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے،راستے میں مفلوک الحال شخص ملا جس کے مالی حالات انتہائی پریشان کن تھے،وہ ایک وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھا سکتا تھا،موسیٰ ؑ کو دیکھاتو گزارش کی کہ اے اللہ کے پیغمبر! آپ تو خدا سے ملتے رہتے ہیں،اب جب ملیں تو خدائے لم یزل سے میری ایک گزارش پیش کیجیے گا کہ میرے حصے کا جتنا رزق ہے ،وہ اللہ ایک بار ہی مجھے دے دے تاکہ میں ایک دن ہی سہی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ پیٹ بھر کر کھا سکوں۔موسیٰ ؑ نے اپنے اس مفلوک الحال امتی کی بات من و عن خداتک پہنچا دی ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ!اس بندے کا رزق صرف ایک بوری اناج کے برابر ہے،اس لیے اسے تنگ دستی کے ساتھ دیتا ہوں کہ وہ ساری عمر کھاتا رہے۔موسیٰ علیہ السلام نے یہی بات اس شخص تک پہنچا دی،وہ اس بات پر بضد رہا کہ میرا رزق جتنا بنتا ہے،مجھے ایک مرتبہ ہی عنایت کر دیا جائے،یوں اس امتی کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور اسے اس کی قسمت کا سارا رزق اکٹھا فراہم کر دیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کچھ عرصے بعد وہاں سے گزرے تو دیکھا کہ وہ شخص انتہائی اچھے حال میں ہے،اس کے گھر دیگیں پک رہی ہیں،ایک بڑی تعداد میں لوگ کھانا کھا رہے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے گزارش کی کہ اے باری تعالیٰ!آپ کا کہا پتھر پر لکیر ہے،میں اتنے عرصے بعد اس امتی کے ہاں سے گزرا تو کیا دیکھا کہ اس کا رزق جاری ہے،وہ خود بھی کھا رہا ہے اور سینکڑوں لوگ بھی سیر ہو کر کھا رہے ہیں،!یہ کیا ماجرا ہے۔اللہ رب العزت نے فرمایا اے موسیٰ! تم سچ کہتے ہو،وہ شخص بہت ذہین نکلا،اس نے دیے گئے رزق سے اپنے اہل خانہ کو کھلایا اور جو بچ گیا اس نے میری راہ میں خیرات کر دیا،موسیٰ! کوئی میری راہ میں خیرات کرے تو میں اسے ستر گنا واپس کرتا ہوں،بس یہی کہانی ہے،تیرے امتی نے مجھ سے تجارت کر لی اور میں اسے اپنے وعدے کے مطابق کئی گنا کر کے واپس لوٹا رہا ہوں۔ مجھے موسیٰ علیہ السلام کے اس امتی کا واقعہ پڑھ کر اپنے نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث یاد آ گئی،آپ نے فرمایا تھا کہ جو شخص کسی کو کھانا کھلاتا ہے،اس کی طرف رزق بہت تیزی سے آتا ہے۔حدیث میں آتا کہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے اتنے راستے ہیں جتنے ریت کے ذرے،سب سے اہم راستہ اللہ کی مخلوق سے ہو کر گزرتا ہے،جس نے اس فارمولے پر عمل کر لیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے ،وہ رب کا ہے اور جو رب کا ہے وہ سب کا ہے،وہ شخص کبھی مار نہیں کھاتا۔ میں جب ان واقعات کو پڑھ کر المصطفیٰ دستر خوان پہنچا ۔المصطفیٰ ٹرسٹ کے چیئرمین عبد الرزاق ساجد نے جو نیک کام کا آغاز اپنے چند دوستوں اور چند روپوں سے شروع کیا تھا،آج اس سے ایک دنیا مستفید ہو رہی ہے،یہ روشنی کا سفر تین سال میں کتنا آگے تک پہنچ گیا،ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔دنیا کے بائیس ممالک میں جاری خیر اور نیکی کا کام اس تیزی سے جاری ہے کہ ہم سب دنگ ہیں،صرف تین سال کے قلیل عرصے میں المصطفیٰ آئی ہسپتال سے دو لاکھ سے زائد لوگوں کا مفت آپریشن جن کی آنکھوں میں سفید موتیا تھا،اڑھائی لاکھ سے زائد آنکھوں کا فری معائنہ،پچاس ہزار سے زائد آنکھوں کے چشمے تقسیم کیے،یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا بلکہ تین سال میں ہزاروں ایسے لوگوں کی معاونت سے ہوا جو خدا سے تجارت کا فارمولا سمجھ گئے تھے،یہ فارمولا میری آنکھوں کے سامنے درجنوں لوگوں نے آزمایا،ایسے لوگ جو تنگ دست تھے،رزق کی کشادگی چاہتے تھے،انھوں نے خدا سے تجارت شروع کر دی اور خدا نے اتنا نوازا کہ وہ خود ششدر تھے کہ اتنا رزق کیسے ملا۔ المصطفیٰ کا سب سے نمایاں کارنامہ المصطفیٰ دستر خوان ہے،ہمارے ہاں عمومی طور پر دستر خوان صرف رمضان میں لگائے جاتے ہیں مگر المصطفیٰ کا دستر خوان سارا سال چلتا ہے،اس دستر خوان سے روزانہ سات سو افراد دوپہر اور شام کا کھانا کھاتے ہیں،یہاں مینیو بھی بہت مختلف اور لذیذ ہوتا ہے۔رمضان المبارک کا مہینہ ہمارے امتحان کا مہینہ ہے،ہم اس کی راہ میں کتنا خرچ کرتے ہیں اور کیسے خرچ کرتے ہیں۔پاکستان پر جب بھی آزمائش آئی،المصطفیٰ جیسے اداروں نے انتہائی مثبت کام کیا،تھر میں پانی کا مسئلہ ہو یا پھر زلزلہ زدگان کی بحالی کا،پاکستان بھر میں آئی کیمپ لگانے ہوں یا سیلاب متاثرین کے لیے راشن اور صاف پانی پہچانا ہو،المصطفیٰ نے کامیابی کا انتہائی شاندار سفر طے کیا ہے۔ایک وقت میں ایک فرد کا کھانا تقریبا تین سو روپے کا بنتا ہے،آپ خود اندازہ لگائیں کہ سات سو افراد کا ایک وقت کا کھانا کتنے کا بنتا ہے،تقریباً دو لاکھ کا،یعنی چار لاکھ روزانہ میں صرف ایک دن کا کھانا ارینج ہوتا ہے،پورے مہینے اور سال کا خرچہ کا حساب لگا لیں۔آپ اسی حساب سے افطار کا حساب لگا لیں،خود سوچیں کہ المصطفیٰ کے چیئرمین اور ان کی ٹیم کس قدر متحرک ہے جو یہ سارا کام انتہائی خوش اسلوبی اور جاں فشانی سے کر رہی ہے،نواز کھرل ہوں یا آپا نصرت سلیم اور حامد رضا،یہ سب اپنے طور پر خدا کی مخلوق سے محبت میں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں،پاکستان بھر میں میڈیکل کیمپوں سے لے کر راشن کی تقسیم،آنکھوں کے آپریشنز اور دستر خوان کا اہتمام ،یہ سارا کام یہ لوگ صرف اور صرف خدا کی رضا کے لیے کر رہے ہیں کیوں کہ یہ جانتے ہیں کہ خدا کے قریب پہنچنے کا سب سے آسان راستہ اس کی مخلوق سے محبت ہے،آپ خدا کے بندوں کو کھانا کھلائیں،ان کی پریشانیاں حل کریں،ان کے لیے سہولتیں پیدا کریں،خدا آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا،خدا آپ کے راستے آسان کرے گا اور برکت کا سفر ایسے ہی جارے رہے گا تو ایک دن یہ دنیا جنت بن جائے گی۔