صد حیف سب سحاب بھی ثابت ہوئے سراب پلکوں پہ دھل کے آ گئے سارے ہمارے خواب ہم کتنے خوش گمان تھے آ جا کے یہ کھلا گلدان میں تھے آپ کے سب کاغذی گلاب اور پھر آتے ہیں کس شمار میں ہم سے زمین زاد اترے ہیں آسمان سے بس آپ ہی جناب اے سعد کچھ کہو کہ کہاں ہے وہ آسماں ٹانکے تھے جس پہ آپ نے مہتاب و آفتاب۔ سب کے پاس بس دعوے اور وعدے ہی ہیں کارکردگی تو اب بھی کہیں نظر نہیں آ رہی تف ہے اس بیان پر کہ کوئی یہ کہے کہ مہنگائی مہنگائی کا شور مچا کر کوئی اپنے کرتوت نہیں چھپا سکتا۔میں کسی کے کرتوت کو ڈفنڈ نہیں کر رہا مگر یہ جو گرانی ہے کیا یہ معاشی قتل نہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت اسی مہنگائی کو ختم کرنے کے لئے آئی تھی۔انہیں نو دس ماہ گزارنے کے بعد ابھی اتنا ہی پتہ چلا ہے کہ گرانی نصف صد کے قریب بڑھ چکی ہے۔ سیلاب کے حوالے سے بھی انہیں اب علم ہو رہا ہے کہ بحالی کے لئے کئی سو ارب درکار ہیں۔ہر کسی کو حکومت میں آ کر ہی معلوم ہوتا ہے کہ حالات بڑے مخدوش ہیں۔ ہمیشہ جانے والے آنے والوں کے لئے مسائل پیدا کر کے ہی جاتے ہیں۔وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ انہیں سوچ سوچ کر رات کو نیند نہیں آتی۔ویسے انہیں ویسے بھی نیند نہیں آتی۔مشہور ہے کہ وہ نہ سوتے ہیں نہ سونے دیتے ہیں چلو اچھا ہے کہ وہ جنیوا میںڈونرکانفرنس چیئر کرنے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف مجھے ایک معاملہ ہر صورت میں بات کرنا ہو گی کہ سوشل میڈیا پر پھیلائے گئے گند کو صاف کرنا ہو گا۔: ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یا رب‘اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے اب آتے ہیں پھر مہنگائی کی طرف کہ شہباز شریف سوئیں یا نہ سوئیں سونا ضرور مہنگا ہو رہا ہے اور عوام کا سونا مشکل ہو گیا ہے۔چلو سونے کو چھوڑیے کہ یہ عام لوگوں کا مسئلہ ہی نہیں کہ انہیں تو آٹا دال کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔آپ مرغی کو دیکھ لیں کہ پانچ صد روپے فی کلو سے تجاوز کر گئی ہے اور اس گرانی کا حل اس حکومت کے پاس بھی وہی جو پہلے حکومت کے پاس تھا۔وزیر خوراک فرماتے ہیں کہ برائلر کھانا چھوڑ دیں پچھلے بھی یہی کہتے تھے دو روٹی کی بجائے ایک کھائیں۔چینی چھوڑ دیں کہ شوگر کرتی ہے۔پھر ان برائلر کی فیڈ کے حوالے سے لیکچر دیے یا دلائے جا رہے ہیں کہ وہ مرغیاں زہر کھاتی ہیں جس کے اثرات کھانے والوں میں بھی آئیں گے۔ دالیں بھی تو بہت مہنگی ہیں ہاں سبزیاں وہ بھی کچھ سستی ہیں اور صحت مند رہنے کے لئے سبزیاں ابال کر کھانے کی عادت ڈالی جائے یہ مسالہ جات اور گھی تو دل کے لئے ضرر رساں ہیں حکومت کو چاہیے کہ اس پر سیمینار کرے اور پی ٹی وی پر سرکاری پروگرام کروائے مگر پی ٹی وی تو کوئی دیکھتا نہیں چینی کے خلاف بھی ڈاکٹرز سے پروگرام کروائے جا سکتے ہیں مگر ذرا کم کہ کہیں چینی ناراض نہ ہو جائیںجو کہ سی پیک کے حوالے سے پہلے ہی ناراض ہیں۔ویسے کھانے کے لئے صرف ہوا ہی بچتی ہے اور وہ بھی صاف نہیں ہے۔ آئو ذرا تازہ ہوا کھا آئیں۔ ہے ہوا میں شراب کی تاثیر بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی سبزہ و گل کے دیکھنے کے لئے چشم نرگس کو دی ہے بینائی جو بھی راستہ کہیں کھو چکا ہے منزل کا تو تذکرہ ہی نہیں اوپر سے دھند ایسی اتری ہوئی ہے کہ بس راستہ دکھانے والے خود ہی کھو چکے ہیں۔ایسے ہی بلھے شاہ کا شعر سامنے آ گیا۔ ملاں تے مسالچی دوہاں اکو چت۔ لوکاں کر دے چاننا آپ ہنیرے نت۔ یعنی مولوی اور مشعل بردار دوسروں کو تو روشنی دکھاتے ہیں خود ہمیشہ اندھیرے میں رہتے ہیں۔ مگر وہ جو مسالچی بھی نہیں اور رہنما بھی نہیں۔ان کے سامنے کمائی کا ایک اڈہ ہے وہی ان کی منزل ہے یہ چور‘ ڈاکو اور حرص و ہوس کے مارے ہوئے باری باری آتے ہیں خزانہ خالی کرتے ہیں پھر چلے جاتے ہیں۔ خزانہ غریب لوگوں کی کمائی سے اور بیرونی قرضوں سے بھرا جاتا ہے۔ریاض روبی کا شعر: اپنی گٹھڑی خود اٹھانا ہے اسے بھاری نہ کر ہم نفس بازار سے اتنی خریداری نہ کر صورتحال بڑی تشویشناک ہے۔دو بڑے پہلوان اکھاڑے میں اترے ہوئے ہیں یہ الگ بات کہ دونوں اس وقت اقتدار میں نہیں باقی پہلوان اس لڑائی پر خوش ہیں عوام تو جیسے لاتعلق سے ہو چکے ہیں کہ وہ کیا کریں وہ تو شاید دودھ بھی چھوڑ چکے اول تو دستیاب ہی نہیں کہ سب کیمیکل کے کمالات ہیں اگر آپ تردد کریں اور خود کاوش کریں تو 200روپے کلو ہے اب تو گوالے خود پوچھتا ہے کہ پانی والا چاہیے یا خالص۔واقعتاً وہ کتنا ایماندار ہو گیا ہے بتا کر دودھ بیچتا ہے گلیوں میں تو 600روپے کلو مکھن اور گھی بھی بکتا ہے۔پتہ نہیں وہ کیا بیچ رہے ہیں یہاں تو سب کچھ بکتا ہے وفاداریاں تک بکتی ہیں ویسے کیسی مزے کی بات ہے کہ جو وفادار نہیں ہوتا وفا بھی اسی کی بکتی ہے وفادار پر تو کوئی لائن بھی نہیں مارتا۔ آج کل تو متحدہ والے بھی لکڑیوں کے گٹھڑ کی طرح اکٹھے ہو رہے ہیں کہ ناانصافی سے وہ کوڑی کے نہیں رہ گئے تھے متحد ہونے کا تذکرہ نہیں متحدہ بننے پر زور ہے۔ویسے تو پی ڈی ایم بھی ایک متحدہ ہی ہے کہ کتنی پارٹیاں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہیں کہ بانٹ کر کھائو اور مل کر کھائو۔ ان سب کے پاس برباد کرنے کے لئے اپنا علاقہ ہے غور کریں تو وہی انگریزوں والا نظام کہ شورش ختم کرنے کے لئے عوام سے غدار ڈھونڈ لئے جائیں اور انہیں اپنا آلہ کار بنا لیا جائے اب بھی طاقت کا مرکز یا مراکز کہیں اور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف سیریں کر رہے ہیں واپس نہیں آ رہے۔ایک مرتبہ ایک لڑکی پلاسٹک کے سانپ کو چھوتے ہوئے ڈر رہی تھی اور کہتی جاتی تھی مجھے پتہ ہے یہ سانپ پلاسٹک کا ہے لیکن پھر بھی کیا پتہ ہوتا ہے اپنی حکومت میں بھی وہ نہیں آ سکے دوسروں کی حکومت میں کیسے رہ سکتے تھے پتہ نہیں شہباز شریف تو اس مصرع کی تفسیر ہیں۔ ملو جو ہم سے تو مل لو کہ ہم بہ نوک گیاہ مثال قطرہ شبنم رہے رہے نہ رہے