وقت بدلا تو بڑھے ویرانے کیسے ویراں ہوئے چائے خانے میرے لہجے میں اداسی آئی اس اداسی کو سخن ور جانے یہ خبر نہیں استدعا ہے بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ یہ مصرع منیر نیازی نے کتنے رسان سے کہہ دیا تھا سچ مچ ایسے ہی ہے سیاست ہوکہ ادب کچھ بھی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ ایک مادی آہنگ اور ڈھنگ دکھائی دیتا تھا۔ یہاں کون لفظ کے حوالے سے ملتا ہے۔ایک دوسرے سے یکسر اجنبی میری پہچان زمانہ ٹھہرا آپ مجھ کو نہ مگر پہچانے۔رشتۂ درد کی گرہوں پہ نہ جا اور ٹوٹیں گے یہ تانے بانے۔ آج تو ایسے ہی سردی نے باندھ کر بٹھا دیا تو یادوں نے سر اٹھا لیا۔چاہت تو ٹیک پڑتی ہے خود آنکھوں سے اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی۔ دل کا دھڑکنا تو پہلے پہل ناصر کاظمی کی سمجھ میں نہیں آیا تھا وہی کہ وہ تری یاد تھی اب یاد آیا۔بات توجہ کی ہے: اس کے لب پر سوال آیا ہے یعنی شیشے میں بال آیا ہے یہ خیال بڑا نازک ہوتا ہے بالکل آئینہ کی طرح یہ وہی آئینہ ہے جو جون ایلیا کے ہاں دیکھ بھال سے بھی ٹوٹ جاتا ہے کوئی اور توڑے تو وہ پروا بھی نہیں کرتا، ہوا ریزہ ریزہ جو دل ترا اسے جوڑ جوڑ کے مت دکھا وہ جو اپنے حسن میں مست ہے اسے آئینے کا خیال کیا۔ ابھی میں بابر کا شعر دیکھ رہا تھا سچ کہا آپ کی دنیا سے مجھے کیا لینا میں تو بس یونہی چلا آیا تھا اچھا صاحب۔ بس یہی آسانی اور سہولت اگر میسر آ جائے تو ساری مشکل حل ہو جاتی ہے ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے۔ شاعری میں علم جھانکے تو تکلف کا گمان گزرتا ہے۔ ہم تو شاعری کو بے ساختہ پھوٹنے والے چشمہ کی طرح دیکھتے ہیں یا والہانہ گرتی ہوئی آبشار کی صورت۔ مزاحمت اور انقلاب تک بھی شاعری میں سما سکتا ہے اور اظہار پا سکتا ہے شہزاد احمد نے کہا تھا: میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا دیکھ کر مجھ کو ترے ذھن میں آتا کیا ہے مصیبت تو یہی ہے کہ ہر شے کمرشل ہوتی جا رہی ہے ادب میں بھی سیاست در آئی ہے مگر سیاست میں ادب کا داخلہ بند ہے ادب میں بھی اجارہ داری ہے سرکاری ادب مختلف ہے ۔میں کسی کو ٹارگٹ ہرگز نہیں کر رہا۔کیا ایسا ہی نہیں ہوتا کہ کانفرنسوں میںایک ہی لابی کے لوگ آتے ہیں ۔ کتنے ہی اوریجنل اور باکمال لوگ نظر انداز کر دیے جاتے ہیں اور کچھ کو صرف رونق کے لئے مدعو کیا جاتا ہے چلیے چھوڑیے: مت شکایت کرو زمانے کی یہ علامت ہے ہار جانے کی مگر ہم ہار ہی تو گئے ہیں اس ستم گر زمانے سے اظہار شاہیں یاد آئے اپنے ہونے کا پتہ دے کوئی شیشہ کہیں گرا دے۔ان کا ایک اور شعر یاد آیا ایک پتہ گرا پیڑ سے ٹوٹنا کتنا آسان ہے ہائے ہائے مجھے لاہور کینٹ کے مشاعرے یاد آ رہے ہیں۔ سچ مچ ادب کے حوالے سے لوگ ملتے تھے ۔بشیر رزمی اور احسان اللہ ثاقب اللہ انہیں غریق فردوس کرے۔ کیسے کیسے شاعر یہاں آئے اب تک کانوں میں اظہار شاہین کی آواز گونجتی ہیں وہ اچھے شعر پر اچھل پڑتے اور کہتے پھر سنیں گے بھائی پھر سنیں گے وہ واقعتاً محبت کے پیکر تھے: تم کسی راستے سے آ جانا میرے چاروں طرف محبت ہے مجھے بے چینی کا وہ زمانہ کیسے بھول سکتا ہے کہ سیدھے منیر نیازی کے پاس گھنٹوں بیٹھنا نظمیں سنتا ادھر سے نکلتا تو شہزاد احمد کی طرف جا دھمکتا۔شہزاد احمد کی بے پناہ محبت کہ اپنے خاندان کا فرد سمجھ کر کھانے کی میز پر ساتھ بٹھانا۔ ان کی لائبریری میں چائے چلتی اتنی بڑی لائبریری کم کم ہی دیکھنے میں آئی ہے ۔ان کے انتہائی تہذیب یافتہ بیٹے توصیف شہزاد اور توحید شہزاد۔ہر بڑا ادیب لاہور آتا تو شزاد احمد کے ہاں حاضری دیتا ہماری ملاقات بھی ہو جاتی دو دن بھی اگر میں غائب ہوتا تو شہزاد احمد گڑھی شاہو آ جاتے کہتے اوئے شاہ تو کتھے آں خیر تے ہے۔ کیا سنہری یادیں ہیں۔وہ جو میں اصلی شعر کی بات کر رہا تھا تو دیکھیے شہزاد احمد کو: میں ترا کچھ بھی نہیں ہو ں مگر اتنا تو بتا دیکھ کر مجھ کو ترے ذھن میں آتا کیا ہے اس شعر سے مجھے اپنے دوست عدیم ہاشمی بھی یاد آ گئے کہ ان کا بنایا ہوا شہزاد احمد کا پورٹریٹ شہزاد صاحب کے ڈرائنگ روم میں آویزاں ہے جس کے نیچے مصرع لکھا ہے میں اس لئے ہوں کہ اک شخص دیکھتا ہے مجھے عدیم ہاشمی بھی کیا کمال کے شاعر تھے: کٹ ہی گئی جدائی بھی یوں تو نہیں کہ مر گئے تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے ہمارے اس گروپ کے ایک خوبصورت کردار اسلم کولسری تھے جن کے بارے میں شہزاد احمد کڑھتے رہتے اور کہتے ویکھ شاہ اس نے وعدہ کیا تھا مگر وہ نہیں آئے گا جب اسلم کولسری سے شکوہ کیا جاتا تو مخصوص انداز میں مسکرا دیتے۔ دیکھا جائے تو شہزاد احمد صدر کے علاقے میں ادب کی آبیاری کرنے والے تھے وہاں ہیڈ ماسٹر انور ملک بھی ایک مشاعرہ برپا کرتے ان کا ایک شعر بھی تو لکھنا پڑے گا: جب بھی آتا ہے مرے جی میں رہائی کا خیال وہ میرے پائوں کی زنجیر ہلا دیتے ہیں ابھی میں نے کالم تمام نہیں کیا تھا کہ پتہ چلا کہ ہمارے دوست ریاض رومانی حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔میں سوچتا ہی رہ گیا کہ ہفتہ کو چھپنے والے کالم میں ان کا شعر میں نے لکھا تھا اپنی گٹھڑی خود اٹھانا ہے اسے بھاری نہ کر ہم نفیس بازار سے اتنی خریداری نہ کر۔ دل مردہ ہو گیا ریاض رومانی کا تعلق بھی کینٹ ہی سے تھا ان کے والد محترم معروف شاعر اختر رومانی تھے شہزاد احمد کے دوستوں میں تھے ہم نے اکٹھے مشاعرے بھی پڑھے۔ریاض رومانی حلقہ ارتقائے ادب کے جنرل سیکرٹری تھے۔ اپنی گٹھڑی خود اٹھانا ہے اسے بھاری نہ کر ہم نفس بازار سے اتنی خریداری نہ کر اور لوگوں کے لئے تو معتبر ہو گا مگر میرے اندر کے مکیں مجھ سے اداکاری نہ کر اللہ پاک ریاض رومانی کی مغفرت فرمائے۔ آمین