یہ پاکستان کیلئے اعزاز کی بات ہے کہ ایمرجنسی سروسز اکیڈمی ریسکیو 1122 کی پاکستان ریسکیو ٹیم اقوام متحدہ سے جنوبی ایشاء کی پہلی سرٹیفائیڈ ڈزاسٹر ریسپانس ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کر چکی ہے۔ یہ اعزاز در حقیقت 8اکتوبر 2005ء کے ہولناک سانحہ کے بعد ایمرجنسی سروس کی مسلسل محنت کوشش کا نتیجہ ہے۔ 8اکتوبر کے سانحہ نے تربیت یافتہ ایمرجنسی سروسز کے قیام اور بین الاقوامی معیار کے مطابق سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب ایمرجنسی سروس ابتدائی مراحل میں صرف لاہور شہر میں موجود تھی اور تربیت یافتہ سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیں دوسرے ممالک سے منگوائی گئی تھیں جنہوں نے ملبے تلے دبے لوگوں کو ریسکیو کیا۔ آج یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہوں کہ حادثات نہ صرف نقصانات کا سبب بنتے ہیں بلکہ عقل مند قوموں کیلئے بہت سی بہتری کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیںلیکن اس کیلئے واضح مقصد، باصلاحیت قیادت اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ڈزاسٹر ریسپانس کا قیام ایمرجنسی سروس ریسکیو1122کی بدولت اکتوبر 2004ء میں شروع ہوا اور ایک سال کے بعد 8 اکتوبر 2005ء پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ بھولنے والا قومی سانحہ رونما ہوا جس میں زلزلے سے 87 ہزار سے زائد لوگ منوں مٹی تلے دب گئے۔ لاتعدادقیمتی املاک کا نقصان ہوااور یہ سلسلہ صرف یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ کچھ سال بعد سیلاب 2010ء کی تباہ کاریوں کی وجہ سے بے تحاشہ نقصان ہوا۔اس سانحہ نے کمیونٹی سے لیکر ایوانوں کو یک دم ہلا کر رکھ دیا۔قدرتی آفات کو وقوع پذیر ہونے سے روکا تو نہیں جا سکتا لیکن یہ بات قابل تشویش تھی کہ تعمیرات اس طرز پر نہ تھی کہ ان میں رہائش پذیرزلزلے سے بچ سکتے اور نہ ہی ایمرجنسی سروس کے پاس بین الاقوامی معیار کی تربیت یافتہ سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم موجود تھی۔ پاکستان اس قومی سانحہ پر بغیر کسی بیرونی امداد کے نبرد آزما نہیں ہو سکتا تھا اور ایسا ہی ہوا۔سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیں بھی باہر سے منگوائی گئیں اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت بھی لوگوں نے متاثرین کی مدد کی جسکی وجہ سے کئی لوگ بچ تو گئے مگر غیر پیشہ ورانہ طریقے سے متاثرین کی منتقلی کسی زحمت سے کم نہ تھی اس سے اکثرلوگ ساری زندگی کیلئے مفلوج ہوگئے ہم سب بحیثیت قوم اس قومی سانحہ کے بعد اکٹھے ہو گئے تاکہ ان نامساعد حالات سے بہتر طریقے سے نبٹا جا سکے۔یہ وقت تھا کہ جب حکومت پاکستان نے بیرونی مدد کے ذریعے زلزلہ زدگان کیلئے بہترین تعمیرات کو یقینی بنانے کی کوشش کی ان علاقوں میں آج بھی جا کر دیکھیں تو شایدہی کوئی گھر ایسا ہو جو زلزلے کے بعد بنایا گیا ہو اور پہلے سے بہتر نہ ہو پاکستان آرمی اور تمام متعلقہ اداروں نے تمام جگہوں کا سروے کر کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو عمارات ،گھر کی تعمیرات کیلئے اقساط میں رقم دی جس کی وجہ سے متاثرین نے پہلے سے زیادہ بہتر تعمیرات کو یقینی بنایا۔ یہ بات اہم ہے کہ حادثات سے نبرد آزما ہونے کیلئے کسی بھی سانحہ کے بعد عوام الناس اکثر متحد ہو جاتی ہیں اس طرح حا دثات نقصان کیساتھ ساتھ ایسے مواقع کی فراہمی کی وجہ بن جاتے ہیں جن سے ترقی کی طرف سفر شروع ہوجاتا ہے۔یہ وقت تھا جب لاہور میں پنجاب ایمرجنسی سروس قائم کی گئی تھی مگر ریسکیو سروس ابھی مکمل طور پر سرچ اینڈ ریسکیو کے آلات سے مزین نہ تھی۔آج بڑے فخر کی بات ہے کہ ایمرجنسی سروسز اکیڈمی ریسکیو1122کی پاکستان ریسکیو ٹیم اقوام متحدہ سے جنوبی ایشیاء میںپہلی سرٹیفائیڈ ڈزاسٹر ریسپانس ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ سے سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں کو سند دینے والا ادارہ انٹرنیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایڈوائزری گروپ ہے جو کسی بھی ملک کی استعداد کار بڑھانے کیلئے اقوام متحدہ سے ماہرین کو ریسکیو ٹیموں کی تربیت کیلئے بھیجتے ہیںاور 2015ء میں پاکستان ریسکیو ٹیم کی اقوام متحدہ میں رجسٹریشن کی گئی جس کے بعد مختلف سرچ اینڈ ریسکیو کے ماہرین مختلف ادوار میں پاکستان آ کر پاکستان ریسکیو ٹیم کے ہر فرد کو اس شعبہ کے متعلق بین الاقوامی گائیڈ لائنز کے مطابق تیاری کروائی جس کے بعد 2019ء میں اقوام متحدہ انسراگ کے مختلف ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم آسٹریا، انگلینڈ، جرمنی، سوئٹزر لینڈ، مراکش، اردن اور اقوام متحدہ سے پاکستان 28 سے 31 اکتوبر 2019ء تک لاہور آئی جنہوں نے 36 گھنٹے کی ڈزاسٹر کی فرضی مشق میں پاکستان ریسکیو ٹیم کا جائزہ لیا اور متفقہ طور پر پاکستان ریسکیو ٹیم کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے سرٹیفکیشن کیلئے اپنی رپورٹس پیش کیں جس کی بنیاد پر اقوام متحدہ انسراگ سیکرٹریٹ کی نمائندگی مسٹر ونسٹن چینگ نے کرتے ہوئے 31 اکتوبر 2019ء میں گورنر سیکرٹریٹ پنجاب پاکستان میں باضابطہ اعلان کیا ۔ اس بڑی کامیابی کے بعد پاکستان ریسکیو ٹیم اربن سرچ اینڈ ریسکیو کے شعبے میں عالمی نیٹ ورک کا حصہ بن چکی ہے اور یہ کسی بھی ڈزاسٹر میں عالمی معیار کے مطابق ڈزاسٹر ریسپانس کی صلاحیت رکھتی ہے مزید براں دنیا بھر میں کسی بھی سانحہ میں مدد کیلئے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے بھیجی جا سکتی ہے۔ ریسکیو سروس کی 16سالہ سفر میں یکے بعد دیگرے عوام دوست اقدامات ہیں جو بلا شبہ فائونڈر ڈائریکٹر جنرل کمانڈ پاکستان ریسکیو ٹیم ڈاکٹر رضوان نصیرکی باصلاحیت قیادت اور سپیکر پرویز الٰہی، گورنر پنجاب چوہدری سرور جیسے عظیم سیاست دانوں کی پشت پناہی کا نتیجہ ہے ۔ ایمرجنسی سروسز اکیڈمی کی مسلسل کاوشوں میں ایک کاوش یہ بھی ہے کہ ہر سال اس اکیڈمی میں قومی سطح پر ریسکیو چیلنج کا انعقاد کروایا جاتا ہے جس میں پاکستان بھر سے ایمرجنسی سروسز کی ٹیمیںحصہ لیتی ہیں جس میں ٹیمیں کو حادثات و سانحات میں ریسپانس کرنے کی صلاحیتوں کے لیے مختلف فرضی مشقوں سے گزرنا پڑتا ہے اور بہترین کارکردگی کی حامل ریسکیو ٹیم کو اعزاز اور انعامات سے نوازا جاتا ہے ۔ہم وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو اور تمام پاکستانیوں کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ الحمداللہ ایمرجنسی سروسز اکیڈمی ریسکیو1122کی پاکستان ریسکیو ٹیم اقوام متحدہ میں ڈزاسٹر ریسپانس کے شعبہ میں دنیا کی بہترین ٹیموں میں شامل ہو چکی ہے اور اب وقت ہے کہ اس ٹیم کی زریعے نہ صرف اپنے ملک کی ٹیموں کو بلکہ جنوبی ایشیاء کی ٹیموں کو اس ٹیم کے ذریعے تربیت دی جائے تاکہ ہر ضلعی ، صوبائی اور ریجنل سطح پر اس ٹیم کے توسط سے مزید ٹیمیں تیار کی جا سکیں اور انسانیت کی خدمت کا یہ سفر جاری و ساری رہے۔