کالم کے گزشتہ حصے کا اختتام یہودیت کے بنیاد پرست فرقے ہیریڈم کے حوالے سے ہوا تھا ۔ہیریڈم عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے خدا سے ڈرنے والے۔کتاب میں درج ہے کہ یہ ان یہودی بنیاد پرستوں کا نام ہے جو جدید ایجادات کو قبول نہیں کرتے۔انہوں نے اپنے لیے عجیب و غریب قانون بنا رکھے ہیں جس پر یہ آج بھی عمل پیرا ہیں۔ اپنے اخبارات نکالتے ہیں، ان کے ایک بڑے مشہور اخبار کا نام ہاشوا ہے جو ہیریڈم کے انتہا پسندانہ نظریات کی ترویج کرتا ہے۔ہیرڈم سادہ لباس پہنتے ہیں، زیادہ تر وہ سیاہ رنگ کا لباس پہننا پسند کرتے ہیںجبکہ دوسرے یہودی جنہیں یہ سیکولر کہتے ہیں وہ جدید فیشن کے مطابق لباس پہنتے ہیں۔ہیریڈم مزید دو پارٹیوں میں بٹے ہوئے ہیں ایک پارٹی وہ ہے جو مشرقی یورپ سے آئے یہودی ہیں انہیں ایشکینازی پارٹی کہتے ہیں۔دوسری پارٹی کا نام شاس ہے جو کہ مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والے ہیریڈم کی پارٹی ہے۔ایشکینازی یہودی گوشت سے بنی کوئی بھی ایسی چیز کھانے سے انکار کر دیتے ہیں جو کہ غیر ایشکینازی ربیوں کی نگرانی میں تیار ہوئی ہو،ان کے مذہبی فرقوں کے پس منظر میں بھی یہ فرق نمایاں ہے کہ کون سا فرقہ دنیا کے کن حصوں سے تعلق رکھتا تھا اور کون سا فرقہ دنیا کے کس حصوں سے تعلق رکھتا تھا۔جیسے دو بڑے ہیریڈی گروپوں میں ایک کو اشکینازی دوسرے فرقے کو مشرقی یا سیفر ڈی کہا جاتا ہے۔ یہودی اپنی ساری تاریخ کے دوران مختلف ملکوں میں بکھرے رہے ہیں۔یہودیوں کا آخری مرکز عراق میں رہنے والا ایک یہودی فرقہ تھا اور یہودیوں کے اس آخری مرکز کے انہدام کے بعد یہودی فرقوں میں اختلافات بڑھ گئے اور سب نے اپنے اپنی عبادت کے نئے طریقے وضع کر لیے تھے۔دسویں اور بارہویں صدی کے دوران فرانس اور جرمنی میں ایک فرقہ ابھرا یہ سب فرقوں سے زیادہ اختراع پسند بن گیا اور پہلے سے مستحکم روایت سے انحراف کرنے لگا یہی فرقہ ایشکینازی کہلاتا ہے۔ان کے آپس میں بھی بہت زیادہ اختلافات ہیں۔سیفر ڈی یہودی سپین اور پرتگال سے تعلق رکھنے والے یہودی تھے، انہوں نے اپنے حوالے سے خاص فخر اور افتخار گھڑا ہوا تھا اور وہ فرقے کے علاوہ دوسرے یہودیوں کے ہاں شادیاں کرنے کو بھی منع کرتے تھے۔بلکہ ایشکینازی یہودیوں سے عام مل جل کو بھی سخت ناپسند کرتے تھے۔ان کے عالموں کی پرانی کتابوں میں درج ہے کہ اپنے سیفرڈی بھائیوں کی صحبت اختیار کرو جو کہ اہالیان اندلسیہ ہیں صرف یہی لوگ ذہین ہیں اور ایشکینازی ربیوں کی لکھی ہوئی کتابیں مت پڑھنا۔ایشکینازی یہودیوں میں بھی مزید تقسیم ہے کچھ سیکولر ایشکینازی کہلاتے ہیں اور کچھ مذہبی ایشکینازی کہلاتے ہیں۔18ویں صدی کے آغاز سے یورپ میں ہونے والی سائنسی اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے ایشکینازی فرقے پر بھی اثر ڈالا کچھ نے اپنے طور اطوار اور نظریات کو بدلنا شروع کیا یہی ایشکینازی سیکولر کہلاتے ہیں۔اس موضوع پر کتاب میں بہت تفصیل درج ہے کالم میں کتاب کی ایک آؤٹ لائن ہی پیش کی جا سکتی ہے۔ یہودی تاریخ مذہبی خانہ جنگی اور بغاوتوں سے بھری ہوئی ہے۔ ان میں ایسی خانہ جنگیاں بھی شامل ہیں جس کے دوران ہولناک قتل و غارت ہوئی۔ایک ایسا گروہ بھی تھا جو اپنے لبادوں میں خنجر لے کر پھرتا تھا اور اپنے نظریات سے مخالف نظریات رکھنے والے یہودیوں کو قتل کرتا تھا۔یہودی تاریخ کے حوالے سے جتنا پڑھتے جاتے ہیں رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کے خون میں قتل و غارت وحشت اور لامحدود سنگدلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔یہودیت کی بنیاد پرستی کی تعلیم کا مرکزی نقطہ عربوں کے خلاف نفرت اور زہر ہے، ان کے نزدیک عربوں کا وجود دنیا کی بقا کے لیے خطرہ ہے اور عربوں کو ختم کرنا ایک سچے یہودی کے لیے بہت بڑا کارنامہ ہے۔ 1994 کا سال تھا اور نومبر کی 25 تاریخ تھی جب ایک بنیاد پرست یہودی گولڈ سٹائن نے فلسطین کی ایک مسجدمیںخون کی ہولی کھیلی۔اس نے مسجد میں داخل ہو کر نمازیوں پر فائرنگ کی اور بچوں سمیت 29 مسلمانوں کو شہید کردیا جبکہ بہت سے مسلمان اس میں زخمی ہوئے۔یہ قاتل گولڈ سٹائن پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھا اور فوج میں ملازمت کرتا تھا۔عربوں سے اس کی نفرت کا عالم یہ تھا کہ ملازمت کے دوران اس نے عربوں کا علاج کرنے سے ہمیشہ انکار کیا فوج کے ڈسپلن کو توڑا مگر اس مداخلت پہ اس کو کبھی سزا نہیں دی گئی۔اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کی اسرائیلی فوج میں مذہبی اور شدت پسند یہودی فرقوں کا اثر و نفوذ کس قدر زیادہ ہے۔شدت پسند یہودیوں کے مطابق کسی یہودی کے ہاتھ سے کسی غیر یہودی کی ہلاکت کو قتل تصور نہیں کیا جاتا۔ ظاہری طور پر سیکولر یہودی بھی یہی سمجھتے تھے، ان کے مطابق چونکہ گولڈ سٹائن نے جو کچھ کیا وہ خدا کے نام پر کیا ہے اس لیے اسے ایک نیک انسان تصور کیا جانا چاہیے۔ بے گناہ اور معصوم مسلمانوں کا وحشیانہ قتل عام کرنے والے کو نہ صرف اسرائیل کی مذہبی کمیونٹی نے سراہا بلکہ اس کے حامیوں کا دائرہ امریکہ تک پھیل گیا،جب وہ مرا تو اس کے جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور یہ تمام لوگ اسے ہیرو مان رہے تھے ان کا یقین تھا کہ وہ ایک نیک انسان ہے۔اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی میں دنیا یہودیوں کی ناقابل بیان سنگ دلی اور ہولناکی کے مظاہرے دیکھ رہی ہے۔نہتے معصوم فلسطینیوں کی خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور دنیا کے طاقتور یہودیوں کے ساتھ کھڑے ان مظلوموں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اسرائیلی دانشوروں کی اس کتاب کے مطالعے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہودیوں کے اندر عربوں خصوصاً فلسطینیوں سے نفرت کس طرح کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ شہید فلسطینی بچوں کے لہو لہو چہروں کو ہیلووین کاسٹیوم سے تشبیہ دینے والے ٹک ٹاک کی ویڈیو منظر عام پر آئی تو مجھے اس کتاب میں پڑھا ہوا وہ حوالہ یاد آگیا جب بنیاد پرست یہودی گولڈ سٹائن نے مسجد میں گھس کر فلسطیی مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اس بہیمانہ قتل وغارت پر یہودی ہنستے اور مذاقا َایک دوسرے سے کہتے کہ گولڈ سٹائن قابل گرفت مجرم ہے کیونکہ اس نے صرف ایک مسجد میں یہ قتل عام کیوں کیا اسے چاہیے تھا کہ مسلمانوں کی تمام مسجدوں میں یہ قتل عام کرتا۔انسانی حقوق کے علمبردار دانشوروں اسرائیل شحاک اور نارٹن میز ونسکی کے شکر گزار ہیں جنہوں اسرائیلی ہوتے ہوئے یہودیت کے ہولناک نظریات کا پول کھولا اور دنیا کے سامنے لے کر آئے۔اس کتاب کا اردو ترجمہ محمد احسن بٹ نے کیا۔184 صفحات پر مشتمل کتاب کے سات ابواب ہیں۔کتاب بلا شبہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔