وزیر اعظم عمران خان اپنے اہم وزراء کے چار روزہ دورے پر چین پہنچ چکے ہیں۔پاکستان کے لوگ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اس دورے سے پاک چین دوستی ایک نئی بلندی کو چھوئے گی۔دورے سے پہلے وزیر خارجہ‘وزیر منصوبہ بندی اور کامرس کے وزیر نے جو اخباری بیانات دیے‘وہ بھی ایک نئی امید کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں بین الاقوامی تعلقات میں دوستی کی بنیاد باہمی مفادات ہی ہوتے ہیں۔خوش قسمتی سے چین اور پاکستان کے باہمی مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔چین کا سب سے بڑا حریف امریکہ بھی اس کوشش میں ہے کہ پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک چین سے کسی حد تک دور رہیں۔چین کے لئے پاکستان ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے، اس کی اہمیت خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہے۔اس لئے چین کی حتی الوسعٰ کوشش ہو گی کہ اس دورے میں پاکستان کو بہت سی نئی مراعات دی جائیں اور پاکستان کے ساتھ اپنے سٹریٹجک ‘دفاعی اور معاشی تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جایا جائے۔چین جانے سے پہلے وزیر خارجہ نے جس انہماک سے ایئر فورس اور نیوی کے ہیڈ کوارٹرز کے دورے کئے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انشاء اللہ ایئر فورس اور نیوی میں چین کے مزید سازوسامان کی ترسیل ہو گی۔پاکستان آرمی پہلے ہی اپنی زیادہ ضروریات چین سے پوری کرتی ہے۔سی پیک کی کامیابی کے لئے بھی پاکستان کی ایک سٹرٹیجک اہمیت ہے۔افغانستان‘ایران‘ سنٹرل ایشیا اور یورپ کے ممالک پاکستان کے راستے سے سی پیک سے منسلک ہوں گے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس انتہائی اہم جغرافیائی اہمیت کے باوجود ابھی تک پاکستان سی پیک کے ثمرات سے کیوں محروم ہے۔پاکستانی قوم کی امیدوں کے برخلاف نہ تو ابھی تک سی پیک کے انڈسٹریل زون فعال ہو سکے ہیں اور نہ ہی گوادر میں تبدیلی کی کوئی رمق نظر آئی ہے۔گوادر پورٹ کی تمام تر اہمیت کے باوجود گوادر میں بجلی ہے نہ پانی اور گیس۔زبانی جمع خرچ کے علاوہ گوادر میں کوئی انوسٹمنٹ نظر نہیں آتی۔اگلے دن انوسٹمنٹ بورڈ کے چیئرمین کا ایک انٹرویو سننے کا اتفاق ہوا۔انہوں نے گوادر کی ترقی کے بلند و بانگ دعوے کئے لیکن مستقبل کا صیغہ ہی استعمال کیا کہ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا اور یہ کہ پچھلے ڈیڑھ ماہ میں انہوں نے گوادر میں انوسٹمنٹ کے لئے بیسیوں کانفرنسز کیں اور وزیر اعظم پوری تیاری کے ساتھ چین روانہ ہوئے ہیں اور چین کے دورے کے بعد منصوبوں کی رفتار میں بہت تیزی دیکھنے میں آئے گی۔چیئرمین کو اپنی نشست سنبھالے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے ہیں۔وہ کافی محنتی اور قابل دکھائی دیتے ہیں اللہ کرے کہ ان کی منصوبہ بندی موثر ثابت ہو۔انٹرویو کے آخر میں یہ دلچسپ انکشاف بھی ہوا کہ موجودہ حکومت میں یہ ساتویں چیئرمین ہیں۔اس کا مطلب ہے کہ انوسٹمنٹ بورڈ کے چیئرمین بھی اسی رفتار سے تبدیل ہوئے ہیں، جس رفتار سے پنجاب کے چیف سیکرٹری اور آئی جی تبدیل ہوتے رہے ہیں۔یہ بڑے عہدے ہیں، جن کی تبدیلی کا پتہ چل جاتا ہے۔ورنہ مری کے حادثے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ مری کے اے سی بھی اتنی ہی تعداد میں تبدیل ہو چکے ہیں۔حکومت کو ایک ایسی مشق کرنی چاہیے کہ ان اسباب کا پتہ چلایا جائے کہ سلیکشن سسٹم میں ایسی کیا خرابی ہے کہ کوئی افسر بھی حکومتی تسلی کے مطابق کام نہیں کر پاتا۔دنیا میں کسی بھی ایڈمنسٹریشن کے معیار کے مطابق چار چھ مہینے کے تقرر میں بہترین افسر بھی تسلی بخش کام نہیں کر سکتا۔پہلے چار چھ ماہ تو کام کو سمجھنے میں لگ جاتے ہیں اور جب ڈیلیور کرنے کا وقت آتا ہے تو نیا پوسٹنگ آرڈر ان کے سامنے ہوتا ہے۔اس طریقہ کار کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ افسر کو شروع سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ چند ماہ کے لئے آیا ہے، اس لئے وہ اپنے کام میں دلچسپی نہیں لیتا اور اپنا زیادہ وقت اپنی آئندہ پوسٹنگ کی منصوبہ بندی اور کوشش میں گزارتا ہے۔وہ کسی دوررس منصوبے کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتا۔اسی وجہ سے موجودہ حکومت اور بیورو کریسی میں بھروسے کا وہ رشتہ قائم نہیں ہو سکا جو مؤثر کارکردگی کے لئے ضروری ہے۔حکومت کا ہر افسر وقت گزاری کی پالیسی پر گامزن ہے۔ گوادر اور گردو نواح کے علاقے میں قانون کی حکمرانی کی صورت حال بھی ناگفتہ بہ ہے۔جگہ جگہ موجود سکیورٹی چیک پوسٹیں کسی بھی انوسٹر کے لئے اچھی صورت حال کی نشاندہی نہیں کرتیں۔پچھلے دنوں گوادر میں مولوی ہدایت کے پرامن دھرنے نے بھی گوادر کی نام نہاد ترقی کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ایک غیر معروف سیاسی کارکن ہزاروں لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب رہا کیونکہ ان کے مطالبات نہایت سادہ اور لوگوں کے دل کے قریب تھے۔ان کا سادہ سا مطالبہ تھا کہ انہیں پانی‘بجلی اور گیس مہیا کی جائے اور مقامی لوگوں کو روزگار دیا جائے۔حکومتی وعدوں پر دھرنا تو ختم ہو گیا لیکن اس کے بعد بھی کوئی مثبت پیشرفت نظر نہیں آئی اور وہی لوگ دوبارہ دھرنا دینے کے لئے پر تولتے نظر آتے ہیں۔نوشکی اور پنجگور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر تازہ ترین حملے بھی یہی ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح دشمن طاقتیں عام لوگوں کی محرومیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہی ہیں۔اگرچہ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا اس کا فوری حل ہے لیکن اس مسئلے کے دیرپا حل کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی حکومت‘مرکزی اور صوبائی سطح پر دیرپا منصوبے بنائے اور اس میں مقامی لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے اور ان کی ترقی کے لئے ایسے منصوبے بنائے جائیں کہ ان کے ثمرات جلد از جلد مقامی لوگوں کو نظر آئیں۔بدقسمتی سے کسی بھی حکومت نے آج تک بلوچستان کی حقیقی ترقی کے لئے خاطر خواہ کام نہیں کیا۔زیادہ سے زیادہ بلوچستان کے سرداروں کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کو ہی کافی سمجھا گیا ہے۔بلوچستان کی بدحالی کے حقیقی ذمے دار یہی سردار ہیں اور یقینا بلوچستان اور مرکز کی حکومتیں بھی ہیں۔ آج کے اخبار کے مطابق امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک ترجمان نے عین چینی دورے کے دن بڑے عرصے بعد پاکستان کو امریکہ کا سٹرٹیجک پارٹنر قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک سفارتی بیان ہے اور حقیقت سے اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔البتہ راہول گاندھی کا راجیہ سبھا میں یہ بیان کہ مودی کی پالیسی کی وجہ سے چین اور پاکستان ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئے ہیں، ہمارے لئے حوصلہ افزائی کا درجہ رکھتا ہے۔ راہول گاندھی نے یہ بھی کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی کے اقدامات نے بھارت کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔یہ حقیقت اپنی جگہ درست ہے کہ چین ہمیں جو بھی رعائتیں دے اور مالی امداد بھی مہیا کر ے مگر جب تک ہم اپنا قومی رویہ تبدیل نہیں کرتے اور خود اپنی ترقی کے لئے تگ و دو نہیں کرتے‘ہماری حالت بدلنے کی توقع کم ہی ہے۔آخری تجزیے میں خدا کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود کو نہ بدلنا چاہے۔