آصف جیلانی کی وفات سے صحافت کا ایک عہد ختم ہوگیا۔ لکھنا پڑھنا ان کی زندگی تھی‘ خوبصورت گفتگو کرنا ان کی زندگی تھی،جو دیکھا جو محسوس کیا وہ لکھتے رہے۔ آواز کا جادو جگاتے رہے اب وہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی ہے۔وہ شخصیت آنکھوں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئی‘مجھے تو یاد بھی نہیں کہ میں کب سے ان کے مکتوبات اور ڈائریاں پڑھ رہا ہوں۔لیکن اس یقین کے ساتھ کہ ان کے الفاظ حقائق کا پہناوہ تھے وہ اردو صحافت اور براڈ کاسٹنگ کا روشن ستارہ تھے۔ وہ ہم جیسے صحافیوں کے لیے ایک روشن استعارہ تھے کیونکہ آج کل ہم جب تک خبر میں سنسنی پیدا نہ کریں، جب تک خبر کی پھلجھڑیاں نہ چھوڑیں جب تک خبر کو بارہ مصالحے کی چاٹ نہ بنا دیں جب تک خبریں افواہ سازی کا تڑکا نہ لگادیں‘ اس وقت تک نہ شوق پورا ہوتا ہے نہ ذوق۔ سوشل میڈیا پر ہر کوئی صحافی بننے کے شوق میں اپنے یوٹیوب چینل کو موناٹائز کروانے اور اس کی بنیاد پر پیسہ کمانے کی دوڑیں کچھ ہو نہ ہو لیکن خبر کی تحقیق کرنے‘ حقائق جاننے‘ سچ کا اسلوب اپنانے اور ایک مستفید خبر یا تبصرہ دوسروں تک پہنچانے کی خوبی سے آراستہ ہونے کے بجائے نہ جانے دیکھے اور سننے والوں کو اپنے موڈ اور مرضی کے مطابق چونکانے‘ اپنی منشا کے مطابق اصل خبر کا تیا پانچہ کرنے اور لکیر کے ادھر یا ادھر کی نمائندگی کرنے کی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔ سچ پوچھیں تو 70 سے 80 فیصد صحافت کی چیمپئن بننے کے آرزو مند ہمارے دوستوں نے خبر سے اس کے مستند ہونے کا وقار اور حسن چھین لیا ہے۔ آصف جیلانی اسی خبر کی کریڈیبلٹی‘اس کے اسلوب اور اسے پیش کرنے کے تمام مثبت اصولوں کے استاد تھے جس شخص نے زندگی کی 90 بہاریں دیکھیں اور زندگی کے ہر لمحے کو مقصد کے طور پر گزارا جن کے قلم کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں بھی دے رکھی تھیں اور دماغ بھی وہ کالم بھی لکھتے تھے جس میں الفاظ کا چسکہ بھی ہوتا تھا اور چٹخارہ بھی۔ منو بھائی کی طرح عام فہم انداز میں ایک سادہ اسلوب کے ساتھ الفاظ کو سلیقے اور قرینے کے ساتھ ترتیب دیتے جاتے جب مکتوب لکھتے تو ان کی منظر کشی میں آڈیو اور وڈیو دونوں کا سنگم نظر آتا۔ جب مضمون لکھتے تو پھر ان کے قلم سے دلیل اور منطق کے فوارے پھوٹتے۔ جب براڈ کاسٹر کے روپ میں ہوتے تو ان کی آواز میں پہاڑی ندی کی طرح طغیانی ہوتی الفاظ میں جذبات اور احساسات کا اتار چڑھائو سننے والے کے لیے کہی گئی بات میں کئی گنا زیادہ کشش پیدا کردیتا۔ وہ ایک مکمل نیوز مین بھی تھے اور براڈ کاسٹر بھی۔ آصف جیلانی نے دنیا دیکھی۔ پاکستان سے لندن اور لندن سے دہلی‘ اقتدار کے ایوانوں تک رسائی۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں دہلی کی سرگرمیاں‘ پھر ہندوستان میں اسیری کے کڑے دن‘ ایک متلاطم ایک پرجوش‘ بامقصد اور خبر کے لیے سرگرداں شخص‘ آصف جیلانی نے یوں سمجھ لیجئے جنوبی ایشیا کی معاشرت اور تہذیب و متدن پر پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی۔ بی بی سی اور اردو سروس سے طویل عرصے تک منسلک رہے۔ جنگ اور ملت میں ان کی صحافتی خدمات گرانقدر تھیں۔ وہ نصف صدی تک آسمانی صحافت پر چھائے رہے۔ خبر نگاری‘ رپورٹنگ اور مضمون نگاری میں ان کا اسلوب سادہ بھی تھا اور دلکش بھی۔ بی بی سی کے پروگرام ’’سیربین‘‘ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ آصف جیلانی اہلیہ محسنہ جیلانی بھی مشہور شاعر اور ادیبہ ہیں۔ محسنہ جیلانی متعدد کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ ان کے والد اور والدہ بھی تدریس کے شعبے سے منسلک رہے۔ اس لیے ان کی شخصیت علم و شعور کی عکاس ہے۔ انہوں نے جو لکھا خوب لکھا۔ ان کے دو کتابیں بنام وسط ایشیا‘ نئی آزادی نئے تقاضے اور ساغر شیشے لعل و گہر ہیں۔ صحافت کا یہ شائنگ سٹار اب ہم میں نہیں رہا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیسے کیسے باکمال لوگ رخصت ہورہے ہیں۔ چند روز قبل ممتاز نعت خواں قاری شاکر قاسمی بھی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے۔ اس منزل کی طرف روانہ ہو گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ اپنے زمانہ طالب علمی کے دور میں سندھ یونیورسٹی میں نے اپنے استاد اور مرشد ڈاکٹر غلام مصطفی خان صاحب سے یہ دریافت کرنے کی جسارت کی کہ آپ کو خدا کیسے ملا؟ انہوں نے چہرے پر اپنے دلکش و معصوم تبسم کے ساتھ انتہائی دھیمے انداز میں فرمایا ’’صرف خلوص سے‘ جب میں خدا کو پہچان لیا تو میں نے دیکھا کسی بزرگ نے اسے پانے کے لیے چالیس برس جنگلوں میں ننگے پائوں گزار دیئے‘ کوئی کنویں میں الٹا لٹکر وظیفہ کرتا رہا۔ کوئی دریا میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر اسے یاد کرتا رہا۔ تو میں نے اپنے رب سے دعا کی یااللہ اگر صرف جسمانی طور پر مضبوط لوگ ہیں آپ کو یاد کرسکتے ہیں تو میں شاید پوری عمر آپ کو نہ پا سکوں لیکن اگر کمزوروں کا بھی آپ پر اتنا ہی حق ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں میں زندگی میں آپ سے کبھی رخ نہیں بدلوں گا۔ آپ سے اپنی ’’کمٹمنٹ‘‘ نبھائوں گا۔‘‘ تو مجھے خدا مل گیا۔ یہ بات بھی حضرت ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتائی تھی۔ ایک دن مولیٰ علی ؓ سرکار دو جہاںؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے یا رسول اللہ جب نماز پڑھتا ہوں تمام خیالات اور وسوسے ذہن میں آ جاتے ہیں میں کیا کروں کہ نماز میں یکسوئی پیدا ہو۔ خدا کے حبیب ؐ نے اپنے دلارے پر محبت بھری نظر ڈالی اور فرمایا ’’علیؓ جس جن تمہیں یہ احساس ہو گا کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے اور تم اس کے آگے سجدہ ریز ہو۔ تمام خیالات اور وسوسے تمہارے ذہن سے محو ہو جائیں گے۔‘‘ اسی طرح ایک نعت خواں جب سرکارؐ کی محبت سے سرشار ہو کر اس کی خدمت میں عقیدت کے پھول نچھاور کرتا ہے تو وہ بھی آنکھیں موند کر عشق رسولؐ میں اس احساس کے ساتھ ڈوب کر شان رسولؐ بیان کرتا ہے جسے سرکارؐ اسے تحسین بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ اپنا کرم عنایت کر رہے ہیں۔ یہی تو ایک سچے نعت خواں کا اثاثہ اور رسول اللہ سے محبت کا انعام ہے۔ قاسمی خاندان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے تمام بھائیوں نے قرأت اور نعت خوانی سے وابستگی کو اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیا۔ شاکر قاسمی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق کی تقریر سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت کی۔ قاسمی برادران کی قرأت اور نعت خوانی کی خوبی کی ایک دنیا معترف ہے۔ ان کی آواز کی مٹھاس‘ دلکشی اور عقیدت میں ڈوب کر پڑھنے کا انداز پر اثر بھی ہے اور دل و ذہن کو متاثر بھی کرتا ہے۔ ان کے ایک بھائی قاری سعید قمر قاسمی جامع مسجد فاروق اعظم نارتھ ناظم آباد کے مہتمم ہیں۔ ان کے دوسرے بھائیوں میں زاہر قاسمی‘ قاری وحید ظفر قاسمی‘ مولانا آصف قاسمی اور قاری سعید قمر قاسمی شامل ہیں۔ ان کے بڑے بھائی قاری زاہر قاسمی کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب لاہور ریڈیو پر سب سے پہلے قرآن پاک کی تلاوت کرنے والے قاری تھے۔ شاکر قاسمی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے قرآن پاک کو ترجمے کے ساتھ اپنی آواز میں ریکارڈ کرایا تھا اور وہ ٹیلی ویژن سے ’’اقرائ‘‘ کے عنوان سے قرآن پاک سکھانے کے لیے مسلسل ایک پروگرام کرتے رہے۔ دعا ہے کہ خدا رب العزت آصف جیلانی اور شاکرقاسمی کی مغفرت فرمائے۔