محکمہ پولیس کسی بھی ملک کا ہو اسکا بنیادی مقصد لوگوں کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے۔ شہروں، محلوں اور قصبوں میں ہونے والے جرائم کی فوری روک تھام اور امن عامہ کی صورتحال کو برقرار رکھنا ہی اس ادارے کی ذمہ داری ہے لیکن جہاں بات پاکستان کی ہو تو سب سے پہلا سوالیہ نشان ہی اس ادارے پہ لگتا ہے کہ پاکستانی پولیس کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ کیا ہزاروں لاکھوں کی بھاری پولیس نفری کا کام جگہ جگہ ناکے لگانا ہے؟ یا انکا اصل کام چوروں ، ڈاکوؤں اور لٹیروں کو پکڑ کر سخت سے سخت سزا دینا ہے؟ حالاتِ حاضرہ دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہماری پولیس جرائم پیشہ افراد کے لیے صرف ایک زبانی کلامی ڈراوا اور دکھاوا ہے۔ ہمیشہ کی طرح موجودہ حالات میں بھی پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ اس وقت پاکستان کے حالات ہر طرح سے انتہائی مایوس کن ہیں گویا پاکستان ایک ایسی بند گلی میں داخل ہو چکا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ وطن عزیز پہ جس پہلو سے بھی نظر دوڑائیں ،سوائے مایوسی اور دل شکستگی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ ان دگر گوں حالات کے ذمہ داران کرسی کی لڑائی میں اس قدر مگن ہیں گویا جانتے بوجھتے اندھے، گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں۔ سارا دن لمبی قطار کی سزا اور جی بھر ذلت و رسوائی کے عوض ملنے والی ایک آٹے کی بوری سے بھلا رمضان کی برکات سمیٹی جا سکتی ہیں؟ اس وقت پاکستانی عوام بیک وقت بھوک، افلاس، بیروزگاری، مہنگائی اور بدترین معاشی بدنظمی و بد حالی کا شکار ہیں۔ سونے پہ سہاگا بدترین سیکیورٹی کی صورتحال ہے۔ کسی شہر میں کوئی پاکستانی مطمئن نہیں۔ دن رات صبح شام چوروں ، ڈاکوؤں اور لٹیروں سے لٹتے شہری سراپا احتجاج ہیں کہ آخر انصاف کہاں سے ملے گا ؟ اخبارات و رسائل چوری چکاری ، ڈکیتی اور راہزنی کی خبروں سے بھرے پڑے ہیں لیکن اگر کوئی بیخبر ہے تو وہ ہے محکمہ پولیس اور اس سے وابستہ تمام ادارے جنہیں اسی کام کی تنخواہ دی جاتی ہے اور جو عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لیے ہی بنائے گئے ہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ لوگ کس قدر معاشی، معاشرتی، سیاسی بدحالی کا شکار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سب کے ذمہ داران کہاں ہیں؟ حکومت کرنے والوں سے حکومت نہیں چل رہی۔ معیشت کے رکھوالوں سے معاشی بحران سنبھالا نہیں جا رہا۔ انصاف کا ترازو ہاتھ میں تھامے منصف خود انصاف ڈھونڈ رہے ہیں۔ لوگوں کی جان و مال اور عزت کی حفاظت پہ مامور ادارے عوام کی حفاظت میں ناکام ہیں۔ جس کے ذمے جو کام ہے وہ اس میں بھرپور طریقے سے ناکام ہیں تو پھر آخر ان سب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جس طرح جنگل کے قانون میں سبھی آزاد ہوتے ہیں ، کسی پہ کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا۔ جس جانور کا جو دل چاہے کرے اور جسے چاہے نوچ کھائے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ ہمارے دیس میں بھی جنگل کا قانون ہی نافذ ہے۔ امیر طبقہ پیسے و اقتدار کی جنگ میں لگا ہے تو غریب طبقہ روزی روٹی کے چکر میں ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ کرپشن کا کاروبار دونوں جانب تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ پیسے والے بلا امتیاز حلام و حرام پیسہ بنانے میں مصروف ہیں اور غریب غربت و افلاس کی ڈھال تھامے خود پہ لوٹ مار حلال قرار دے چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تمام شہروں میں چوری و ڈکیتی کی وارداتوں میں ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے۔ دن دیہاڑے گاڑیاں ، موٹر سائیکل ، موبائل فون ، نقدی و زیورات کی لوٹ کھسوٹ زوروں پر ہے۔ نہ کوئی سننے والا ہے اور نہ نا کوئی پوچھنے والا اور جو کوئی بلاوجہ کی بہادری دکھانے کی کوشش کرئے تو اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ لہذا عوام کے خون و پسینے کی کمائی سے چلنے والے اداروں کو بند ہی کر دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ بھاری بھرکم ٹیکسوں کی مدد سے پلنے والے ریاست کے وہ تمام ستون جو بری طرح ناکامی سے دوچار ہیں ان کو سرے سے ختم کر دینا چاہیے کہ جب لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ہی جان سے ہاتھ دھونے ہیں تو ان تمام سفید ہاتھیوں کو پالنے کا کیا فائدہ؟؟ وہ تمام سرکاری و غیر سرکاری ادارے جن پہ یومیہ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں ، جو اربوں کا ریونیو اکٹھا کر کے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں منہ کے بل گرے پڑے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ملک چلتا ہی انکی محنت و کاوش سے ہے تو بھئی ہمیں معاف کردیں۔ ایسا ملک چلانے سے بہتر ہے کہ آپ اپنے گھروں کی راہ پکڑیں۔ ہم ایسے رہنماؤں کے شر سے پناہ مانگتے جن کے ہوتے ہوئے پاکستانی عوام آج ان دگر گوں حالات سے دوچار ہیں۔ پاکستانی عوام کو ہر گز ایسے ادارے نہیں چاہیئے جو انہی کی کمائی سے چلیں اور انہی کا سیاسی، معاشی، معاشرتی قتل عام بھی کریں۔ جس ملک میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بے سروسامانی اور بے یقینی کا یہ عالم ہو کہ نہیں پتہ صبح ہمارے ساتھ کیا ہونا ہے۔ کس گلی کے موڑ پہ اور کس سڑک کے کنارے ہمارے سروں پہ بندوق رکھ کے ہم سے سب کچھ لوٹ لیا جائے گا وہاں عوام خودکشیاںنہ کرے تو کیا کریں ؟؟ ان تمام پارٹیوں ، سیاسی جماعتوں اور انصاف کے رکھوالوں سے درخواست ہے کہ ہمیں آپ کی خدمت ، محنت اور سیاسی بصیرت کی ہرگز ضرورت نہیں کہ جسکے بعد یہ ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بن گئی ہے۔ آپکی انتھک "محنت" اور "سیاسی شعور" کے نتیجے میں حالات اس حد تک مایوس کن ہو چکے ہیں کہ اب ذرا سا شعور رکھنے والا پاکستانی بھی اس دیس کو چھوڑنے پہ مجبور ہو چکا ہے اب چاہے وہ خودکشی کر کے یہاں سے رخصت لے یا کسی اور ملک کا ویزا لے کر۔۔۔ یہ اسکی جیب اور قسمت پہ منحصر ہے۔ ٭٭٭٭