گزشتہ ایک ہفتے سے میاں نواز شریف دبئی میں رہائش پذیر ہیں‘وہ سیاسی طور پر انتہائی متحرک ہیں اور چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔اس خواب کی تکمیل کے لیے وہ اپنے ہر سیاسی دشمن سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں،کل تک جنھیں الٹا لٹکانے کی بات کرتے تھے‘آج وہ بھی نواز شریف کے بھائی بن گئے ہیں۔ کل تک نواز شریف فوج کی سیاست میں مداخلت کے سب سے بڑے نقاد تھے مگر آج میاں صاحب سیاست میں فوجی مداخلت کو بھی غلط نہیں سمجھ رہے‘ کل تک نواز شریف لندن میں بیٹھ کر کہا کرتے تھے’’جنرل باجوہ آپ نے ہماری چلتی حکومت گرائی ہے‘آپ نے مجھے کیوں نکالا‘‘،پھر وہی جنرل باجوہ رجیم چینج کے ذریعے شہباز شریف کو اقتدار میں لاتے ہیں‘نواز شریف کے سارے کیسز معاف ہو جاتے ہیں۔نیب اور سپریم کورٹ کے قوانین میں ترامیم بھی ہو جاتی ہیں‘نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی بھی ختم ہو جاتی ہے اور اشتہاری مجرم اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ جاتے ہیں ۔یہی کچھ پیپلز پارٹی نے کیا،کل تک ذرداری کا سب سے بڑا دشمن نواز شریف تھا‘پیپلز پارٹی جس نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر،آمریت کے ہر ہتھکنڈے کو خوش آمدید کہا،کل تک پی پی کو بھی سیاست میں فوجی مداخلت گوارا نہیں تھی مگر آج دیکھیں تو یہ بھی اقتدار کے لالچ میں سب کچھ قبولنے کو تیار ہیں۔آج بلاول بھٹو کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیسے لائے جاتے ہیں‘بس وزارت اعظمیٰ چاہیے‘اس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں‘یہاں تک کہ اپنے سب سے بڑے سیاسی حریف سے بھی دوستی کر لی۔ یہ دو خاندان جنھوں نے تیس سے چالیس سال ملک پر حکومت کی۔ اقتدار کی ہوس میں ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیں اور ایک دوسرے کو گلے بھی لگایا مگر پیش نظر ہمیشہ اپنا مفاد رہا۔یہ دو خاندان گزشتہ ہفتے دبئی میں بیٹھ کر پچیس کروڑ عوام کے مستقبل کا فیصلہ کر رہے تھے اور زرداری و نواز شریف اپنی اولادوں کے لیے راستہ ہموار کرنے کا پلان کر رہے تھے۔کیا ہماری قسمت میں یہی لکھا ہے کہ ہم نے ساری زندگی آلِ شریف اور آلِ زرداری کی غلامی کرنی ہے؟کیا پچیس کروڑ عوام میں کوئی ایک بھی اس قابل نہیں کہ ملک کی باگ دوڑ سنبھال سکے؟کیا خود پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں بھی کوئی ایسا آدمی نہیں جو بلاول اور مریم کی جگہ لے سکے۔دبئی بیٹھ کر یہ جنگ تو جاری ہے کہ وزیر اعظم بلاول بنے گا یا چوتھی مرتبہ بھی نواز شریف ،کیا کوئی اس بدقسمت قوم کے بارے میں بھی سوچ رہا ہے جسے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں؟کیا اس آدمی کے بارے کسی نے سوچا جس کی تنخواہ بیس ہزار ہے مگر اس کے اخراجات پچاس ہزار سے بھی زائد،کیا ان دو خاندانوں کو پاکستانی قوم پر رحم نہیں آتا؟جس قوم کے بچے پیدا ہونے سے پہلے مقروض کر دیے گئے‘جس قوم نے خوابوں کی سزا میں آنکھیں دان کر دی ہوں‘اس قوم کا مستقبل کیا ہوگا؟ آج جب لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں‘کون سا ملک بہتر رہے گا تو یقین کریں میں اندر سے چیخ اٹھتا ہوں‘میں ان بچوں کو کیسے سمجھائوں کہ تعلیم حاصل کریں اور اسی ملک میں رہ کر وطن کی خدمت کریں۔جس ملک میں اپنی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے گونگا،بہرا اور اندھا ہونا پڑے،جس ملک کے ہر دوسرے فرد کو غدار کہا جانے لگے‘اس ملک کی نئی نسل کہاں جائے؟میرے بچے جانتے ہیں کہ سچ بولنا،لکھنا اور دیکھنا ممنوع ہو چکا لہٰذا ظلِ الٰہی جسے سچ کہیں‘اسے سچ مانا جائے،ورنہ سرقلم بھی ہو سکتا ہے۔نئی نسل کو میں سچ کی تبلیغ کیسے کروں‘میں بطور استاد اور قلم کار اس معاشرے میں موجود سیاسی اشرافیہ کے رویے اور لوٹ مار سے اس قدر تنگ آ چکا کہ میں اپنے طالب علموں کو یہ کہتے ہوئے سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ پاکستان میں رہ کر ترقی کریں‘میں اپنے بچوں کو کیسے یقین دلائوں کے یہ ملک ٹھیک ہو جائے گا‘آپ ہمت نہ ہاریں۔جس دن یہ دو خاندان دبئی میں بیٹھ کر پلاننگ کر رہے تھے کہ ہم نے باریاں کیسے لینی ہیں اورکس ادارے کا سربراہ کسے لگانا ہے‘اسی روز گوجرانوالہ میں ایک غریب باپ نے(غربت سے تنگ آ کر) چاربچوںکو مار کر خودکشی کر لی‘یہ خودکشی کس کے سر جائے گی؟ان پانچ مرنے والوں کا قاتل کون ہے؟اس کا جواب اشرافیہ دے گی؟ ناصر بشیر،انتہائی سینئر شاعر اور استاد ہیں،پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بورڈ نے میٹرک اردو کے نصا ب میں ان کی مشہور نظم’’بہادر بچے‘‘جو سانحہ پشاور پر لکھی گئی تھی،شامل کر رکھی ہے۔ یہ نظم 2014ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بچوں کے دلوں سے دہشت گردوں کا خوف ختم کرنے کے لیے خاص طور پر لکھوائی تھی۔2015ء میں پہلی سے بارہویں جماعت کے بچوں میں مفت تقسیم کے لیے’’ آئو مل کر پڑھیں‘‘کے عنوان سے تقریباً بیس لاکھ کتابچے چھاپے گئے تھے جس میں یہ نظم شامل تھی۔پہلے اس نظم کو صرف پانچویںکے نصاب میں شامل کیا گیا مگر بعد میں شہباز شریف کے حکم پر میٹرک کے نصاب میں بھی شامل کر دی گئی،یاد رہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے چوتھی جماعت کے اخلاقیات کے نصاب میں بھی ناصر بشیر کی دو نظمیں شامل کر رکھی ہیں،اب جب رائلٹی کا معاملہ آیا تو ادارہ ناصر بشیر کی بات سننے کو تیار نہیں۔پروفیسر ناصر بشیر نے وزیر اعظم اور نگران وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور ایک پرائیویٹ ادارہ گزشتہ آٹھ برسوں میں اس کتاب کی لاکھوں کاپیاں فرخت کر چکا ہے مگر رائلٹی کے معاملے میں شاعر کو اس کے بنیادی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے‘وزیر اعظم شہباز شریف اور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی جو قلم کاروں اور صحافیوں کے بارے میں انتہائی مثبت رویہ رکھتے ہیں‘وہ اس معاملے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کریں اور قلم کے مزدور کو اس کا حق دلوائیں۔