وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مایوس عناصر کو ملک میں نیا بحران پیدا نہیں کرنے دیں گے،پاکستان اور اداروں کیخلاف ہرسازش کو ناکام کچل دیں گے،وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ آرمی چیف اور فوج کیخلاف گھٹیا، شر انگیزمیڈیا مہم شیطانی ذہن کی منصوبہ بندی کانتیجہ ہے۔ کوئی بھی پاکستانی وزیر اعظم کے خیالات سے اختلاف نہیں کر سکتا،وزیراعظم کی باتیں درست ہیں،وزیر اعظم کی طرف سے نئے بحران کو روکنے والی بات بھی درست مگر جو بحران موجود ہے،اس سے عہدہ بر آ ہونا ضروری ہے۔ آج پی پی اور (ن) لیگ اتحادی جماعتیں مگر ماضی میں محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف (ن) لیگ کی پروپیگنڈہ مہم کسی بھی لحاظ سے درست نہ تھی ۔ آج وزیر اطلاعات محترمہ مریم اورنگزیب کہہ رہی ہیں کہ نفرت پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹیں گے ، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نواز شریف جلد واپس آئیں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک وقت نواز شریف خود بھی اداروں کیخلاف برسرپیکار رہے، کسی بھی موقع پر سیاستدان کو اپنی پسند نہ پسند کی بنیاد پر موقف تبدیل نہیں کرنا چاہئے۔ بہت مسائل اور بہت موضوعات ہیں دل کرتا ہے کہ ایک ایک پر مکمل کالم لکھوں مگر اخبار کے صفحات میں اتنی گنجائش کہاں؟ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے یہ شکوہ کہ دبئی میٹنگ پر (ن) لیگ نے اعتماد میں نہیں لیا،ساتھ ہی انہوں نے خود کے صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آنے کا عندیہ بھی دیدیا ہے لیکن مولانا فضل الرحمن کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہو گی کہ حقیقی جمہوریت سے ہی عہدوں کا تقدس قائم ہوتا ہے،حقیقی جمہوریت کے بغیر نمائشی عہدوں کا صرف خود کی ذات تک فائدہ ہوتا ہے۔ موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ سارے سیاستدان کرسی اور اقتدار کے لئے لڑ رہے ہیں،ملک کے اصل مسائل کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔غربت اور بیروزگاری نے غریبوں کو یونان کے سمندروں میں پھینک دیا ہے۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ گندم کی قیمت میں 300 روپے فی من اضافہ کر دیا گیا ہے،روٹی 20روپے، خمیری روٹی 25 اور نان 35 سے 40 روپے کا مل رہا ہے،غریب کہاں جائیں؟سرائیکی خطہ جو کہ پورے پاکستان کے علاوہ افغانستان و دیگر ممالک کی بھی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے،اسے بھوک سے کیوں مارا جا رہا ہے، قومی مسائل کے حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی دیکھئے کہ جہاں غربت زیادہ ہے وہاں ہر معاملے میں وسیب کو نظر انداز کیا جاتا ہے،بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رقم کی ترسیل آسان بنانے کیلئے سوشل ایکشن پروٹیکشن اکائونٹس پراجیکٹ متعارف کرایا گیا ہے، جس میں کراچی، سکھر، لاہور، کوئٹہ، پشاور، وزیرستان اور سانگھڑ کے شہروں کو شامل کیا گیا ہے جبکہ وسیب کے کسی شہر کو شامل نہیں کیا گیا ، اس حوالے سے یہ بتانا ضروری ہے کہ کسی بھی مسئلے پر وسیب سے امتیازی اور سوتیلی ماں والا سلوک نہیں ہونا چاہئے اور بلا تاخیر اس پراجیکٹ میں وسیب کو بھی شامل کرنا چاہئے۔ وسیب کو نظر انداز کرنے کی بات آئی ہے تو معروف ریسرچ سکالر ڈاکٹر غضنفر مہدی کا یہ مطالبہ درست نظر آتا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں دوسرے صوفی شعراء کی طرح صوفی شاعر خواجہ فریدؒ کے نام سے بھی کوئی سڑک منسوب ہونی چاہئے۔ اسلام آباد میں ملک کے صوفی شاعر بابا بلھے شاہ، رحمان بابا، شاہ عبدالطیف بھٹائی، وارث شاہ، خوشحال خٹک، میاں محمد بخش اور دیگر شعراء کے نام سے شاہرات موجود ہیںمگر سرائیکی شاعر خواجہ فرید کے نام پر کوئی سڑک منسوب نہیں ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وسیب میں زبان و ادب کے حوالے سے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے جبکہ وفاقی وزیر احسن اقبال نے نارووال میں فیض احمد فیض اکیڈمی کیلئے 35 کروڑ کے فنڈز منظور کرا لئے ۔ سوال یہ ہے کہ بابا فرید، سلطان باہو، مولوی لطف علی،خواجہ فرید، علی حیدر ملتانی اور خرم بہاولپوری کیلئے اکیڈمیز کیوں نہیں بنائی جاتیں؟ان کا جرم کیا ہے؟ ان کے نام پر بھی وسیب مین کوئی ادارہ بنانا چاہیے تاکہ ان مشاہیر کی خدمات کو یاد رکھا جاسکے ۔اور نسل نو ان کے کارناموں سے واقف ہو سکے ۔اگر ان کے ناموں پر ادارے قائم نہیں ہون گے تو نسل نو ان مشاہیر کے کارناموں کو بھول جائے گی ۔ چند دن پہلے مظفر گڑھ سے پی پی کے ایم این اے اور وفاقی وزیر مہر ارشاد سیال کے چھوٹے بھائی مہر ابو بکر سیال کی وفات ہوئی ، نماز جنازہ اور قل خوانی میں کم و بیش پچاس ہزار افراد نے شرکت کی، اسی طرح جہانگیر ترین کی بھائی کی لاہور میں وفات ہوئی ، ترین صاحب کے بھائی کی وفات پر جہانگیر ترین سے ہمدردی ہے،وفات کے ساتھ دکھ اس بات کا بھی ہے کہ لاہور میں عالمگیر خان کے جنازے اور قل خوانی میں گنتی کے چند لوگ شریک تھے۔ وسیب کے جاگیر دار اور سرمایہ دار اپنے وسیب کو چھوڑ کر لاہور میں جا کر رہیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔ جہانگیر ترین کے بھائی کے جنازے اور مہر ارشاد سیال کے بھائی کے جنازے کا موازنہ ،عقل مندوں کیلئے اشارہ ہی کافی ہے، اس موقع پر ایک بات اور کرنا ضروری ہے کہ جس طرح جہانگیر ترین نے عمران خان کی حکومت بنوانے پر دولت خرچ کی اور آج استحکام پاکستان پارٹی کے قیام پر وسائل خرچ کر رہے ہیں اگر یہی وسائل سرائیکی صوبہ کے قیام پر خرچ کئے ہوتے تو ان کی وسیب میں شان ہی کچھ اور ہوتی ۔ اور وسیب کے لوگ انھیں یاد کرتے ۔ ٭٭٭٭٭