پاکستانی معاشرے میں تقسیم کا سفر جاری ہے۔مذہب کی تقسیم‘ فرقہ بندی‘ذات پات‘ رسم و رواج‘ صوبے‘زبان اور سیاسی گروہ بندی۔ آخری تقسیم جناب وزیر اعظم نے اپنی کابینہ میں کی ہے۔ کابینہ کے 50-55وزیروں اور مشیروں میں اب دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ایک سند یافتہ اور ایک غیر سند یافتہ، سند یافتہ وزیر صرف دس ہیں۔باقی 40-45وزیر و مشیر غیر سند یافتہ ہیں اور وزیر اعظم کی نظر میں ان کی کارکردگی ناقص ہے۔جس کابینہ میں ناقص کارکردگی کے وزراء کی تعداد تقریباً چار گنا زیادہ ہو‘اس کابینہ کی عمومی کارکردگی یا اوسط کارکردگی کا اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے اس جلسہ تقسیم اسناد میں بڑی صراحت سے بیان کیا ہے کہ کوئی بھی نظام سزا اور جزا کے بغیر نہیں چل سکتا۔ انہوں نے اپنی ذاتی مثال دے کر بھی سمجھایا کہ جب تک ان کے سکول کا نتیجہ صرف ان کے اور ان کے گھر والوں کے درمیان تھا وہ ہوم ورک کرنے سے گریزاں رہتے تھے لیکن جب ایک سمجھدار پرنسپل صاحب نے سکول کی اسمبلی میں حاصل کردہ پوزیشن کا اعلان کرنا شروع کیا تو انہوں نے بھی ہوم ورک میں دل لگانا شروع کیا۔وزیر اعظم کے ترجمان بھی اس تقسیم کو وزیر اعظم کی کمال جرات سے تعبیر کر رہے ہیں کہ وہ پہلے لیڈر ہیں جس نے خود اپنے لوگوں کو ان کی کارکردگی برملا بتا دی ہے۔تاہم وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں اس کے سیاسی اثرات کیا ہوں گے اور اس درجہ بندی کے لئے کون سا پیمانہ استعمال کیا گیا ہے۔بعض مبصرین کی رائے میں پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں خارجہ پالیسی کے محاذ پر خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہم نے بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے اور امریکہ کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کو Absolutely notکی پالیسی اپنائی ہے۔مشکل حالات میں ہم نے ایران اور عرب ممالک کے درمیان میانہ روی کی پالیسی اپنائی ہے اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لانے میں بھی اپنا کردار بخوبی ادا کیا ہے۔لیکن وزیر اعظم شاید اس کا کریڈٹ وزیر خارجہ کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اس کا کریڈٹ اپنی ذات تک محدود کرنا چاہتے ہیں۔یا شاید وہ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناقص ہے اور ان کی تعریفی سند کے قابل نہیں ہے۔ وزیر اعظم اکثر ذکر کرتے ہیں کہ جب ان کی حکومت شروع ہوئی تو پاکستان ڈیفالٹ کرنے کے قریب تھا۔بڑے مشکل حالات میں وزارت خزانہ نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا اور مختلف اقدامات کے ذریعے ملک کے ٹیکس میں بھی اضافہ کیا اور آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے ذریعے قابل عمل حل نکالا۔اس کے باوجود وزارت خزانہ ان کی نظروں میں اس قابل نہیں کہ اسے پسندیدگی کی سند سے نوازا جائے۔پاکستان کے وزیر قانون بلاشبہ ایک قابل قانون دان ہیں اور حکومت کی ہلکی پھلکی اکثریت کے باوجود ابھی تک اپوزیشن اس کی کسی ترمیم کو رد نہیں کروا سکی۔اس کا کریڈٹ بلا شبہ وزارت قانون اور پارلیمانی امور کی وزارتوں کو جاتا ہے اس کے باوجود یہ دونوں وزارتیں بھی پسندیدگی کی سند سے محروم رہیں۔ پاکستان کے وزیر اطلاعات جس طرح حکومت کے موقف کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں‘وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہیں ایک دفعہ اس منصب سے فارغ کرنے کے بعد دوبارہ اسی منصب پر فائز کرنا پڑا کیونکہ کوئی دوسرا وزیر خود کو اس کے اہل ثابت نہ کر سکا۔جب وہ تھوڑے عرصے کے لئے وزارت سائنس میں تعینات ہوئے تو وہاں بھی ان کی کارکردگی کسی بھی وزیر سائنس سے بہتر تھی۔وزارت اطلاعات کے وزیر مملکت بھی ایک فعال نوجوان ہیں اور حکومت کے غلط موقف کو بھی صحیح ثابت کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ دونوں بھی پسندیدگی کی فہرست میں جگہ نہیں بنا سکے۔ اپوزیشن سے تو کسی خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔مولانا فضل الرحمن نے اس درجہ بندی کو احمقانہ چونچلے قرار دیا ہے اور شہباز شریف کے مطابق کھوکھلے لیکچر حقائق کے بالکل منافی ہیں۔مریم نواز کا کہنا ہے کہ معیشت‘خارجہ اور پانی و بجلی کی وزارتوں کا تمغوں سے محروم رہنا حکومت کی ناکامی کی دلیل ہے۔بلاول بھٹو کا خیال ہے کہ صرف چمچوں میں سرٹیفکیٹ بانٹے گئے ہیں۔سینیٹر مولانا بخش چانڈیو کا تبصرہ ہے کہ سارا میلہ مراد سعید کو نوازنے کے لئے سجایا گیا تھا۔حالانکہ اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو وزارت مواصلات نے واقعی بہتر کارکردگی دکھائی ہے اور نئی سڑکیں بنانے کے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی ہے اور این ایچ اے کی آمدنی میں اضافہ کیا ہے۔بعض مبصرین کا خیال یہ بھی ہے کہ سند یافتہ وزیروں میں بھی پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے کے علاوہ کوئی بھی خوش نہیں ہے کیونکہ ہر کسی کا خیال ہے کہ پہلی پوزیشن اسے ملنی چاہیے تھی۔ اپوزیشن کے خیالات سے قطع نظر اس سند نوازی نے پی ٹی آئی کو متحد کرنے کی بجائے اس میں دراڑ ڈالی ہے ۔شاید وزیر اعظم کا خیال ہے کہ ان کے دور اقتدار میں ملک میں دودھ اور شہد کی جو نہریں بہہ رہی ہیں اس کا کریڈٹ دینا ضروری ہے۔یا پھر یہ کہ وزیر اعظم کے کرنے کا کوئی کام باقی نہیں ہے اور اب وہ اس طرح کے غیر ضروری کاموں کے لئے فارغ ہیں۔ سنجیدگی سے سوچا جائے تو وزیر اعظم کو آئندہ الیکشن میں جانے سے پہلے نہایت تیز رفتاری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم سزا اور جزا کی بات تو کر رہے ہیں لیکن وہ خود بھی اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ ملک کی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ اگر وہ اپنے سیاسی حریفوں کا احتساب نہیں کر سکے تو کیا یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی ہی صفوں میں تقسیم در تقسیم کا یہ نیا سلسلہ شروع کریں۔ نہ تو یہ سند‘سند یافتہ لوگوں کے لئے باعث افتخار ہے اور غیر سند یافتہ وزیر تو ویسے ہی شرمندہ ہیں اور وزیر اعظم کے رویے سے شاکی۔یہ وقت تو آئندہ الیکشن کے لئے اپنی جماعت کو متحد کرنے کا ہے۔وزیر اعظم کو یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وزراء اور سکول کے طالبعلم دو مختلف کلاسز ہیں۔ وزراء عام طور پر سینئر سیاستدان ہوتے ہیں اور اپنی عادات میں پختہ ہو چکے ہوتے ہیں۔انہیں اس عمر میں سکھانا کافی مشکل کام ہے وزیر اعظم کے پاس ہر وقت یہ چائس موجود ہوتی ہے کہ خراب کارکردگی دکھانے والے وزرا کو فارغ کریں اور نئے لوگوں کو موقع دیں اس لئے وزیروں کی سکھلائی پڑھائی کے لئے اس طرح کے طریقے اختیار کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔پہلے ہی وزیر اعظم نے کافی محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ بیورو کریسی ان کی مخالف ہے اور میڈیا بھی عمومی طور پر اپوزیشن کے کارنامے ہی اجاگر کرتا ہے۔کیا اب وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی کابینہ کی اکثریت بھی ان کے خلاف پروپیگنڈہ کا حصہ بن جائے۔ اگر وزیر اعظم میں لیڈر شپ کے کچھ جوہر موجود ہیں تو انہیں بروئے کار لائیں تاکہ وہ ایک متحدہ جماعت کے طور پر اگلے الیکشن میں اتریں۔