سیالکوٹ کا سانحہ بظاہر ایک آدمی کی موت ہے لیکن اس واقعہ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اقوام عالم کی نظروں میں پاکستان کی عزت خاک میں ملا کر رکھ دی ہے۔المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔باچا خان یونیورسٹی کے مشال کا کم و بیش اسی طرح کے واقعہ کا شکار ہوا۔اس تازہ حادثے میں ہلاک کیا جانے والا سری لنکا کا شہری تھا،جس وجہ سے اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی ہے اور حکومت حرکت میں آئی ہے۔ایسے واقعات کا ایک قانونی پہلو ہے اور دوسرا نفسیاتی پہلو۔پاکستان میں جرم کرنے والے لوگوں کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سزا سے بچ جائیں گے اور اگر مجرم سیاسی طور پر اثرورسوخ رکھتا ہو تو اس کے بچ نکلنے کا چانس تقریباً سوفیصد ہوتا ہے۔سیاسی اثرورسوخ کے علاوہ اگر مجرم معاشی طور پر طاقتور ہو تو وہ مہنگے سے مہنگا وکیل حاصل کرتا ہے اور پولیس کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا ہے اور اکثر کامیاب ہوتا ہے۔اس حالیہ کیس میں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن سیالکوٹ کا فیصلہ قابل تحسین ہے کہ کوئی وکیل ملزموں کی وکالت نہیں کرے گا۔خدا کرے کہ وہ اس فیصلے پر قائم رہیں اور مجرم کیفر کردار تک پہنچیں۔ایسے کیسوں کی ایک قباحت یہ بھی ہوتی ہے کہ جرم چونکہ ہجوم نے کیا ہوتا ہے اس لئے ملزموں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے۔کسی ایک یا چند ملزموں کو نامزد کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور مجرم اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ایسے ملزموں کے خلاف گواہ ملنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ سارے گواہوں کا فائدہ اسی میں ہوتا ہے کہ جھوٹ بولا جائے اور ایک دوسرے کی مدد کی جائے۔ویڈیو کی گواہی اب بھی پوری طرح مستند نہیں سمجھی جاتی اور ملزموں کے وکیل کوئی نہ کوئی تاویل نکال لیتے ہیں۔اکثر ملزموں کو پچاس فیصد بھی یقین ہو کہ انہیں ایسے قتل میں سزائے موت مل سکتی ہے تو ایسے جرائم ختم ہو جائیں۔پاکستان میں جرائم کی تاریخ گواہ ہے کہ ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے کسی بھی شخص کے قاتلوں کو سزائے موت نہیں دی گئی۔ سانحہ سیالکوٹ سے ہمارے معاشرے کے چند مثبت پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔اس سانحہ کا غم پوری قوم نے منایا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ اسے سیاسی مسئلہ بھی نہیں بنایا گیا اور پوری قوم اس واقعہ کے خلاف متحد ہے۔ملک عدنان جیسے بہادر کردار بھی سامنے آئے ہیں جس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مظلوم کی مدد کرنے کی بھرپور کوشش کی۔حکومت نے بھی اس بہادر آدمی کو عزت دی ہے اور بہادری کا تمغہ دینے کا اعلان کیا ہے۔اگر ایسے لوگوں کو حوصلہ افزائی ہو گی تو اس طرح کے اور لوگ بھی سامنے آئیں گے۔اس کے برعکس پولیس کی موثر کارروائی نہ کرنے کی وجہ بھی نظر آتی ہے کہ اس سے پہلے کے واقعات میں ایکشن لینے والی پولیس کی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی بلکہ پولیس ایکشن کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکت کے لئے پولیس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔پولیس کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ اگر پولیس بہادری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرے گی تو حکومت اس کے پیچھے کھڑی ہو گی اور پولیس کی بہادری کو بھی شناخت دی جائے گی اور فوج کی طرز پر انہیں بھی بہادری کے تمغوں سے نوازا جائے گا اور ان کی شہادت کی صورت میں ان کے خاندانوں کا اسی طرح خیال رکھا جائے گا جیسا کہ افواج پاکستان میں ہوتا ہے۔افسوس کا مقام ہے کہ نہ تو پولیس ریفارمز کئے گئے اور نہ ہی انہیں وہ عزت دی گئی ،جس کے وہ حقدار ہیں۔سزا اور جزا کا عمل ہی کسی معاشرے میں استحکام پیدا کرتا ہے۔اس واقعہ کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ سیالکوٹ کے تاجروں نے مقتول کے خاندان کے لئے ایک لاکھ ڈالر جمع کئے ہیں اور حکومت نے بھی اس کے خاندان کی کفالت کا ذمہ لیا ہے۔پاکستان کے جید علماء کا اقدام بھی قابل تحسین ہے کہ وہ ایک جماعت کی حیثیت سے سری لنکا کے سفارت خانے گئے تعزیت کی اور اس واقعہ کو اسلام کے اصولوں کے منافی قرار دیا ہے۔یہ کیسے ممکن کہ رحمت للعالمینؐ کے نام پر کسی بے گناہ کو قتل کیا جائے اور خدا سے اس کے اجر کی توقع کی جائے۔ایسا اقدام تو ایک گناہ کبیرہ ہے اور یہ لوگ تو خود اپنے مذہب کی توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔علماء کرام کا فرض ہے کہ وہ جذباتی نعروں کی بجائے قوم کی تربیت کریں وہ کس طرح اسلام کے سنہری اصولوں پر عمل کر کے دنیا میں اسلام کا نام روشن کر سکتے ہیں اور کس طرح رسول اکرم ﷺکے اسوہ حسنہ پر عمل کر کے دنیا میں ایک فکری انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ حکومت وقت کے لئے ضروری ہے اس واقعہ کی غیر جانبداری سے تحقیقات جلد از جلد مکمل کی جائیں اور اس ظلم کے اصل عوامل کو سامنے لایا جائے۔اس پہلو سے بھی جائزہ لیا جائے کہ اس میں دشمن ملک کی سازش بھی شامل ہو سکتی ہے کہ پاکستان کی برآمدات پر کاری ضرب لگائی جائے اور پاکستان کے معاشرے کو ایک شدت پسند معاشرہ ثابت کیا جائے۔حکومت کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ پاکستان دنیا کی سیاحت کا مرکز بنے اور غیر ممالک سے لوگ پاکستان آئیں اور ہمارے زرمبادلہ میں اضافہ ہو۔ایسے واقعات پاکستان کی سیاحت کے لئے بھی قاتل ثابت ہو سکتے ہیں۔اس پہلو کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ اس فرم کے مدِ مقابل کسی اور ایکسپورٹر نے کوتاہ اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس فرم کی برآمدات کو نقصان پہنچانے کی کوشش تو نہیں کی۔ایسی فرمز جہاں ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں وہاں سکیورٹی کا خاطرہ خواہ انتظام ہونا بھی ضروری ہے۔جس شہر کے تاجر امداد باہمی سے اپنے طور پر ایک ایئر پورٹ بنا سکتے ہیں۔ انہیں مرکزی طور پر سکیورٹی کے لئے Quick Reaction Forceبھی بنانے کی ضرورت ہے۔کسی بھی ادارے کو سکیورٹی کے لئے کئے گئے اخراجات کو فضول نہیں سمجھنا چاہیے۔اس کی ضرورت تو شاید کبھی کبار پڑتی ہے لیکن اس کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔اس کے علاوہ ہمارے ملک میں ایک عجیب و غریب رواج ہو گیا ہے کہ مزدوروں اور دیگر پیشہ وروں کی تنظیمیں اپنے اصل کام سے ناآشنا ہیں اور ان کے رہنما اپنے ذاتی کاموں کے لئے ان تنظیموں کا استعمال کرتے ہیں اور اپنے پیشہ ور ساتھیوں کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی کام نہیں کرتے۔اگر مزدوروں کی کوئی موثر تنظیم اس فیکٹری میں موجود ہوتی تو وہ اس واقعہ کو ظہور پذیر ہونے سے روک سکتی تھی۔فی الحال یہ تنظیمیں غنڈہ گردی اور قانون شکنی کا ایک منبہ بن چکی ہیں۔ آخر میں چند الفاظ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں۔پاکستان کی حکومت نے اچھے الفاظ میں امریکہ کی جمہوریت کے بارے میں منعقدہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت کی ہے اور امریکہ کے پاکستان کے بارے میں رویے پر ایک خاموش احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔بے شک یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن ہمارے اندرونی حالات کو ایسے فیصلوں سے مطابقت رکھنا نہایت ضروری ہے اگر ہم اندرونی طور پر کمزور ہوں گے اور قانون کی حاکمیت کہیں نظر نہیں آئے گی تو ایسے فیصلے بیرونی محاذ پر بھی ہمارے لئے نقضان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔حکومت کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے اور طاقتورو ترین لوگوں کو قانون کے ماتحت لایا جائے۔اگر ہم اندرونی طور پر کمزور ہوں گے تو ہم آزادانہ خارجہ پالیسی کے صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔اس پر عمل کرنا ناممکن ہو گا۔