چند روز پہلے پوری دنیا میں عورتوں کا عالمی دن بڑے جوش و خروش سے منایا گیا۔ پاکستان میں بھی پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا ہر جگہ عورتوں کے حقوق پر بڑھ چڑھ کر خطبے دیئے گئے۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی 8 مارچ کو جو کچھ ہوا اس سے سبھی اچھی طرح واقف ہیں۔ سیاست کی آڑ میں حکومت اور مخالف جماعت میں جو سیاسی تماشہ سڑکوں پہ مچایا گیا سارا دن میڈیا کے ذریعے لوگوں کو گاہے بگاہے تازہ صورتحال سے آگاہی ملتی رہی۔ عورت کا تحفظ ، تعلیم ، صحت، عائلی و ازدواجی زندگی میں پیش آنے والے مسائل ، وراثتی حقوق جیسے سنگین مسائل کو حل کرنے کی بجائے سارا زور "مرد سے آزادی اور مرد سے برابری" کے گرد گھومتا نظر آتا ہے۔ لبرلزکی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ وہ عورت جو صبح آٹھ سے رات آٹھ بجے تک کولہو کے بیل کی مانند نوکری کرکے چند لاکھ کماتی ہے وہی اصل "آزادی" کی فضا میں سانس لے رہی ہے جبکہ درحقیقت ایسی عورتیں گھر ، نوکری اور خاندان کے بیچ گھن چکر بننے کے بعد جن شدید نفسیاتی اور جسمانی مسائل کا شکار ہوتی ہیں ان کا ادراک انہی خواتین کو سب سے بہتر ہوتا ہے۔ گھر، نوکری اور بچوں کی تکون میں پھنسی خواتین جو اپنے بچوں کیساتھ ساتھ گھر کے سکون سے بھی محروم ہوتی ہیں ، یہ اذیت اچھی طرح سمجھ سکتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین معاشی طور پر مستحکم ہو کر اپنے گھر، خاندان اور معاشرے کو تقویت فراہم کرتی ہیں۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ عورت کو مرد کی نسبت زیادہ مشقت اور تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے۔ آج مغرب سے مرعوب خواتین جب یہ کہتی ہیں کہ عورت کا "فطری مقام" اور مرتبہ " محض بچے پیدا کرنا، گھر اور چاردیواری" نہیں ہے تو درحقیقت وہ اپنی مشکلات میں خود اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ معاشرے میں ایک مؤثر اور طاقتور کردار ادا کرنے کے لیے عورت کا روز صبح گھر سے نکلنا ضروری نہیں۔ گھر میں بیٹھی خواتین کو اگر اپنی اصل طاقت کا اندازہ ہو جائے تو وہ یقیناً ان خواتین سے زیادہ موزوں و موثر کردار ادا کر سکتیں ہیں جن کے پاس اپنی اولاد کیلیے بھی وقت نہیں ہوتا۔ عورت کی اصل طاقت اسکی وہ ذہنی قابلیت اور نسلوں کی آبیاری ہے جو اللہ نے اسے ودعیت کی ہے اور یہ کام مرد کبھی بھی احسن طریقے سے سرانجام نہیں دے سکتے۔ عورت کی سب سے بڑی طاقت اسکی کمائی نہیں بلکہ اسکی گود میں پلنے والی نسلیں ہیں جو ایک معاشرہ تشکیل دیتی ہیں۔ ہوسکتا ہے بعض قارئین کی نظر میں یہ محض ایک " جذباتی" اور " مرادنہ" بیان ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر عورت کواپنے اصل مقام و مرتبے کا تعین ہواور وہ اسکا درست سمت میں استعمال جانتی ہو تواس سے طاقت ور مخلوق اس کرہ ارض پر کوئی نہیں۔ اور اصل مسئلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے جب عورتیں اپنی اصل صلاحیت اور خدادا قوت کو صحیح سمت استعمال کرنے کی بجائے غلط جگہ اور غلط مقام پر توانائیاں صرف کرتی رہتی ہیں۔ عورت کا استحصال کرنے میں پس پردہ عورت ہی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہی کہ گھروں میں بیٹھی خواتین کی اکثریت ساس، بہو، نند، بھابھی ، دیورانی اور جیٹھانی کی گھریلو اور کمتر سیاست سے باہر نہیں نکلتیں۔ ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام میں موجود منفیت اور زہر پھیلانے میں جتنا موثر کردار خواتین ادا کرتیں ہیں مرد اس کا عشر عشیر بھی نہیں اور اسکی بنیادی وجہ سوچ کی تنگی ہے۔ گھر، نسل اور خاندان کو پروان چڑھانے میں دل، دماغ اور سوچ میں جو شعور اور وسعت ہونی چاہیے تھی اسکا فقدان ہے۔ میری نظر میں اس کی بنیادی وجہ سوچ کا چھن جانا ہے۔ کسی بھی انسان کی ،بچے یا بچی ، لڑکے یا لڑکی کی اصل طاقت اس کی سوچ ہوتی ہے۔ وہ فہم و فراست ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کرکے اس دنیا میں بھیجا ہوتا ہے۔ سوچنے کی وہ طاقت چھین کر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ہمیشہ کیلیے کمزور اور ذہنی محتاج کر دیتے ہیں اور پھر یہی کمزوری ہمیں معاشرے میں نظر آتی ہے۔ ہمارے اردگرد چلتے پھرتے سبھی کردار کسی نا صورت میں اپنی اس کمزوری کا چیخ چیخ کر اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ وہ ایک کمزور ماں کی گود سے تربیت لے کر معاشرے میں ایک لاغر اور بیمار سا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ بحیثیت قوم ہمارے اندر غلط کو غلط کہنے کی جرأت و جسارت کیوں نہیں؟ ہمارے مرد جتنے مرضی قوی اور بہادر ہوں وقت آنے پر اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے میں ناکام کیوں رہتے ہیں؟ کیونکہ جن ماؤں کی گود سے وہ نوجوان بن کے نکلتے ہیں انکے اندر یہ طاقت نہیں ہوتی کہ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہہ سکیں۔ نیز یہ معاشرہ " مردوں کا معاشرہ" ہے کا شکوہ کرنے والی خواتین کی اکثریت شام ڈھلے اسی مرد کے بنائے ہوئے گھر میں جا کے تحفظ محسوس کیوں کرتی ہیں؟ اسی باپ، بھائی، شوہر کی آمدن اور آسائشوں میں پل بڑھ کر پھلنے پھولنے والی خواتین ہمہ وقت انہی مردوں سے شاکی کیوں رہتی ہیں؟ میری نظر میں اسکی بنیادی وجہ سوچنے اور فیصلہ کرنے کی طاقت پہ قدغن ہے جو بچپن میں ہی لگا دی جاتی ہے۔ بچپن سے ہی لڑکوں کو احساس برتری اور لڑکیوں کو احساس کمتری دے کر جوزیادتی کی جاتی ہے وہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اصل میں تربیت کا انداز اور اٹھان ہی غلط بنیادوں پر کیا گیا۔ گھر ، چادر، چار دیواری کا تحفظ اور خوبصورت احساس ہر انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ مرد ہو یا عورت دنیا میں جہاں کہیں چلے جائیں، جتنا مرضی ترقی کے مراحل طے کرلیں دنیا کی سختیوں اور جھمیلوں سے نمٹنے کے بعد گھر واپسی اور گھر کے سکون کی تمنا دونوں میں یکساں ہوتی ہے۔ لہٰذا اس لا یعنی بحث کو اب ختم ہو جانا چاہیے کہ عورت گھر میں رہے یا مرد۔ گھر دونوں کی بنیادی اور فطری ضرورت ہے اب انکا دائرہ کار کیا ہے اور کتنا ہے؟ اس کا تعین ہمیں کرنے کا کوئی حق اور اختیار نہیں کیونکہ ہمیں پیدا کرنے والے خالق و مالک نے مرد و زن کے دائرے مقرر کر دئیے ہیں اور انسانیت کی بقااور عافیت اسی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا اپنا درست کردار ادا کرنے میں ہے۔ انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جب جب انسان نے اپنے مقرر کردہ فطری دائرے سے نکلنے کی کوشش کی ہے ہمیشہ نقصان ہی اٹھایا ہے اور پلٹ کے اسے وہیں جانا پڑتا ہے۔ دین اسلام کا اگر باریک بینی سے وسعت قلبی سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جو مقام اسلام نے عورت کو دیا ہے، وہ کسی اور معاشرے نے نہیں دیا۔