کون سمجھے مرا تنہا ہونا یہ دنیا سے شناسا ہونا پھول کا کھلنا سرشاخ دیاایک امید کا پیدا ہونا اپنے من میں ڈوبنا اور فطرت کی رنگا رنگی تلاشنا ایک عجیب مشغلہ ہے۔اچھا لگتا ہے مجھے گل تو بجا لگتا ہے۔وہ بھی میری ہی طرح محو دعا لگتا ہے۔آ گہی بھی ایک نعمت سے کم نہیں کہ بہت کچھ منکشف ہونے لگتا ہے بعد مدت کے کھلا یہ مجھ پر اتنا، اچھا نہیں اچھا ہونا۔ اب تو معمول ہوا جاتا ہے بات بے بات تماشہ ہونا۔ تو بات یہ ہے کہ پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے شاید اسی خوشی میں پنجاب اسمبلی کے اندر کرسیاں چل گئیں بہرحال ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی ۔یہ شعر اپوزیشن کی نمائندگی کر رہا ہے رند بخشے گئے قیامت کو، شیخ کہتا رہا حساب حساب۔ پرویز الٰہی کی ادیبانہ گفتگو بھی سب نے سنی کہ ن لیگ والے بارات لے کر آئے تھے مگر ڈولی خالی گئی بلکہ جھولی بھی وہ 186ووٹ لے گئے ان کی مہربانی کہ وہ زیادہ بھی لے سکتے تھے بس ایسے ہی ہوتا ہے یہ معجزات سیاست ہیں بلکہ سیاست اسی کو کہتے ہیں کہ آپ ہتھیلی پہ سرسوں جما کر دکھا دیں۔ اس قضیے کو چھوڑتے ہیں اور معاملات زندگی پر آتے ہیں۔ پرویز الٰہی کی 1122اور دوسرے کاموں کے ہم معترف ہیں اور وہ ایک خاندانی آدمی ہیں ہمارا سوال بنتا ہے کہ آخر پنجاب میں ہو کیا رہا ہے پہلا مسئلہ تو آٹے کا ہے کہ اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ غریب کی چیخیں نکل گئی ہیں وفاق یہ پراپیگنڈہ کر رہا ہیکہ آٹا صوبائی معاملہ ہے اور یہ کہ یہ مصنوعی انداز میں آٹے کا بحران پیدا کیا جا رہا ہے جبکہ آٹا کافی مقدار میں موجود ہے اگر یہ سچ مچ سیاست ہے تو یہ عوام کو پامال کر کے کیوں کی جا رہی ہے۔ جناب پرویز الٰہی صاحب دوسرے کام نہیں کر رہے کون ذمہ دار ہے ظاہر اپنی بات کے ثبوت کے لئے میں اپنا مشاہدہ اور تجربہ پیش کروں گا مثلاً سردیوں میں یقینا گیس کے مسائل ہیں کہ شارٹیج پیدا ہوتی ہے اور یہ مخصوص اوقات میں آتی ہے مگر کیا کیا جائے کہ ہمارے لوگ بھی ایسے ہی ہیں کہ کمپریسر لگا رکھے ہیں۔یہ ایک جرم ہے ۔مگر تکلیف دہ بات یہ کہ میرے بیٹوں نے ایک دو نہیں پانچ چھ کمپلینٹ کروائیں کہ ہمارے پڑوسیوں نے کمپریسر لگا کر ہمارے ناک میں دم کر رکھا ہے ہر مرتبہ وعدہ وعید کے باوجود حرام ہے کہ سوئی گیس کے محکمہ سے کوئی آیا ہو ہر مرتبہ فرماتے ہیں کہ آپ کی کمپلینٹ آگے ڈال دی گئی ہے چوبیس گھنٹے میں آدمی آئے گا مگر ہمیں یہ تسلی سراسر جھوٹ لگنے لگی ہے دوسری طرف پڑوسیوں کو بلا کر دکھایا کہ جناب آپ کا میٹر دیکھیے کس رفتار سے چل رہا ہے اور ہمارا جامد و ساکت کھڑا ہے اصل میں ایک کنکشن سے دو کنکشن بنائے جاتے ہیں پڑوسی تعجب کا اظہار کرتے رہے مگر ان کی آنکھیں ان کی بات کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں اب بتائیے ایک جگہ رہنا ہے تو کیا آپ جھگڑنے بیٹھ جائیں۔ ہم نے حکومت کی ترغیب پر سولر سسٹم لگوایا اسے واپڈا کے ساتھ اٹیج بھی کر لیا ان کی فیس بھی ادا کر دی اور اب وہ میٹر جو خود بجلی والے لگا کر گئے ہیں لائن مین کہتا ہے کہ اسے نیچا کر کے لگوائیں اور لگانے والے کی کچھ خدمت بھی کر دیں۔ ذھن میں رہے کہ میٹر خود انہوں نے لگوایا ہے سب سے اہم بات یہ کہ چار پانچ ماہ سے ہماری ریڈنگ ہی نہیں آ رہی واپڈا کے دفتر جائیں تو متعلقہ شخص نہیں ملتا یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ متعلقہ آدمی ہے کون۔ یہ مرغزار کالونی ہی کا واقعہ نہیں بلکہ ہر جگہ ایسے ہی معاملات ہیں اصل بات یہ کہ حکومت کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ اداروں کی طرف متوجہ ہو حکمران تو اقتدار کی کھینچا تانی میں لگے ہوئے اور بات بات پہ کہتے ہیں کہ عوام فیصلہ کریں گے کہ کس کے ساتھ ہیں حالانکہ ساتھ بوٹ یہ کسی اور کے پالش کرتے ہیں۔ شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا کیا کریں دل دکھتا ہے کہ آخر ہم کس جگہ پہنچ گئے ہیں نجیب احمد یاد آتے ہیں ہم اتنے بھی گئے گزرے نہیں ہیں ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے سب کچھ تباہ ہو چکا ۔ پتہ نہیں میں یہ کیسی باتیں لے بیٹھا مگر کیا کروں کہ اس وقت لوگوں پر بہت مشکل وقت آیا ہوا ہے لوگوں کے پاس پیسے نہیں ہیں کہ وہ بڑھتی مہنگائی کا مقابلہ کر سکیں اس سے جرائم بڑھ رہے ہیں پیٹ کی آگ تو بجھانی ہے۔ دیکھیے پھر میں اپنا حوالہ دے رہا ہوں کہ رات گاڑی باہر رہ گئی تو اس کی بیٹری غائب پتہ چلا کہ کالونی میں یہ کام عام ہو رہا ہے کہ دھند اور سردی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بیٹری نکالی جاتی ہے چلو شکر کہ گاڑی بچ گئی کہنے کا مقصد یہ کہ جرائم اور چوری چکاری بڑھ گئی ہے اب تو بیمار ہونا بھی کوئی افورڈ نہیں کر سکتا ۔ سب سیاست کرنے میں مصروف ہیں اور یہ ستم ظریف مشق ستم عوام ہی کو بناتے ہیں۔ بحران پیدا کریں یا غیر یقینی صورت حال مزدور اور دیہاڑی دار بے چارہ مارا جاتا ہے حکمرانوں کو ذرا بھی خیال نہیں کہ یک دم آٹا چند ماہ میں سو سے ڈیڑھ سو فی کلو پر پہنچ گیا یقینا روٹی اور نان اب مہنگا ہو گا یہ جنیوا کانفرنس میں اپنی کامیابی پر اترا رہے ہیں کہ بڑا تیر مار لیا لوگ اتنے تھک چکے ہیں کہ احتجاج کرنے کی بھی سکت نہیں یا پھر ذلیل ہونے میں کوئی لذت آ گئی ہے ایک بے چارے سراج الحق ٹرائکا کے بارے میں چیخ رہے ہیں کہ انہیں عوام سے کوئی ہمدردی نہیں کہ ان پر منکشف ہے کہ عوام کو کون پوچھتا ہے سب کسی کے آسرے پر بیٹھے ہیں ہر چند کوئی کہے کہ وہ نیوٹرل ہے مگر یقین کرنے والوں کے پاس اپنا تجربہ اور تاریخ ہے ایک شعر: کچھ نہیں چاہیے مولا تو معافی دے دے آگے رحمت ہے تری پیار اضافی دے دے