میں جہاں کہیں بھی ہوتا رمضان کا چاند نظر آتے ہی گھر کیلئے نکل پڑتا۔ پہلا روزہ ہمیشہ امی کے ہاتھ کی سحری سے رکھا اور ان کے ساتھ ہی افطار کیا۔ہمارے گھر میں رمضان المبارک کا بہت جوش و خروش سے استقبال کیا جاتا ۔مختلف مشروبات اور بہترین کھجوروں سمیت دیگر اشیاء کی ایڈوانس خریداری کی جاتی،اضافی دودھ تین کلو سے پانچ کلو کا آرڈر کردیا جاتا اورسارا مہینہ دہی گھر پربنایا جاتا۔رمضان کی آمد سے پہلے عید کی طرح گھر کی صفائی ستھرائی کی جاتی۔قرآن پاک اور مستند احادیث پر مشتمل دعائوں والی کتابیں منگوا کر رکھ لی جاتیں اور گھر آنے والے ہر مہمان کو گفٹ ہوتیں کہ جب تک یہ پڑھے گا ثواب ملے گا۔ گزشتہ شب رمضان المبارک کے ہزاروں واٹس ایپ پیغامات آرہے تھے۔ کسی ٹیکسٹ کو کھولنے کا دل نہیں تھا اور نہ ہی گھر جانے کا کوئی ارادہ،امی کی رحلت کے بعد ہفتوں بعد صرف کچھ گھنٹوں کیلئے ہی گھر جاتا ہوں ۔ان کے بغیر گھر میں دل نہیں لگتا ،انکو وہاں نہ دیکھ کر وحشت ہوتی ہے۔پہلا رمضان ہے جس کے آغاز کیلئے گھر نہیں گیا،صبح سحری کیلئے بھی دل نے ساتھ نہ دیا۔کیوں کہ آج پہلا روزہ تھا جب کانوں میں یہ آواز نہیں سنائی دی کہ’’ سلمان پتر اٹھ جا‘‘۔سحری کیلئے اٹھانے والی شفیق ماں کی آواز نہیں آئی۔اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلانے والی ماں نہیں تھی اس لیے کچھ کھانے کی ہمت نہیں ہوئی ،آنسوئوں اور سسکیوں کے ساتھ چند گھونٹ پانی کے ساتھ سحری کی۔امی نے چھ سال کی عمر سے روزے رکھنے کی عادت ڈالی اور اس کے بعد گرمی سردی ،سفر خواہ کچھ بھی ہوکبھی روزہ نہیں چھوڑا ۔گزشتہ سال کینسر کئیر ہسپتال میں امی کے کیموگرافی کے سیشن ہورہے تھے تو کہنے لگیں کہ میں نے روزہ نہیں چھوڑنا ،’’کیمو‘‘ رمضان کے بعد لگوا لیں گے۔امی سے کہا کہ آپ بیمار ہیں آپ سے روزہ نہیں رکھا جائے گا تو انکا جواب استقامت کے اعلیٰ درجے کا تھا کہ’’جے مرنا اے تے فیر روزے نال ای ٹھیک اے میں بغیر روزے اللہ کول نہیں جانا‘‘۔یہی عادت باقی بہن بھائیوں کی بھی گھٹی میں ہے کہ چھ سات سال کی عمر سے رمضان کے مکمل روزے رکھنے ہیں۔ سحر و افطارمیں کوشش ہوتی کہ امی کے ساتھ ہی بیٹھنا ہے ۔ہم جتنے بھی بڑے ہوگئے لیکن امی کے پاس جاکر اندر کا بچہ جاگ جاتا ۔انہوں نے ہمیشہ بے حد پیار کیا۔بچپن سے ہی مجھے شدید گرم کھانا کھانے کی عادت ہے۔ امی نے اپنے پاس بٹھا کر توے سے ڈائریکٹ پراٹھا میری پلیٹ میں رکھنا۔میں نے اپنا پرائیویٹ سکول اور کالج بنایا تو امی سے پیسے لیے۔ ذاتی میگزین شائع کرنے کا شوق ہوا تو امی سے کہا انہوں نے اپنا سارا گولڈ مجھے دے دیا کہ جائو اسے بیچ کر اپنا اخبار نکال لو۔رشتہ دار خاتون نے کہا کہ باجی زیورکون بیچتا ہے۔امی نے اس خاتون کو کہا کہ میراصل سونا اور زیور اولاد ہی ہے، زیور پھر بن جائے گا اولاد کی خوشی زیادہ ضروری ہے۔ خاندان کے ہر فرد کا خیال بھی ہماری طرح ہی رکھتیں کہ یہ بھی میرے بچے ہیں۔ لاکھ اپنے گرد حفاظت کی لکیریں کھینچوں ایک بھی ان میں نہیں ماں کی دعائوں جیسی خاندان یا کسی بھی جاننے والی خواتین نے گھر آکر امی سے کوئی مسئلہ ڈسکس کرنا تو انہوں نے تب تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک کہ اس کا مسئلہ حل نہ ہوجائے۔ پتر لوکاں دے کم کروادیا کر اللہ راضی ہوندا اے۔ ماں کی نصیحت کو حکم مانتے ہوئے روزانہ ان گنت افراد کے کام کروانے کی کوشش کی۔کسی دوست کو کسی بھی ڈیپارٹمنٹ ،شہر یا دنیا کے کسی بھی ملک میں کام ہوتو شاید ہی کبھی ایسا ہوا کہ چند منٹ میں اس کو اس بندے تک نہ پہنچایا ہو۔ امی کو مہمان نوازی کا بہت شوق تھا اس لیے ہر روز تین سے چا ر طرح کے کھانے پکاتیں اورہمارا گھر خاندان کا مرکز بنا ہوتا تھا۔رمضان کے ہر عشرے میں افطاری کا اہتمام کرتیں۔والدین کی دیکھا دیکھی میں نے بھی ہمیشہ کوشش کی کہ اللہ تعالی مجھے میزبانی کا موقع دے ،اس لیے جب بھی تھوڑا وقت ملتا ہے دوستوں کی دعوت کا اہتمام کرنا اولین ترجیح ہوتا ہے۔بہت کم ایسا ہوا ہوگا کہ میں نے کبھی اکیلے کھانا کھایا ،خود ہی کوئی نہ کوئی مہمان آجاتا یا شارٹ نوٹس پر بھی کسی دوست کو کال کرنی کہ میری طرف آجائو اکٹھے کھانا کھاتے ہیں۔ رمضان میں امی اللہ سے تجارت کیلئے سب کچھ غریبوں میں بانٹ دیا کرتیں۔ ہمیں بھی تلقین کرنی کہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کی کوشش کیا کرو۔ماں کو کبھی بھی اس بات کی فکر نہیں ہوئی کہ میرے پاس کیا بچے گا جو بھی مدد کے لئے آیا اسے خالی ہاتھ نہ جانے دیا ،رحم دلی اور شفقت گھر سے لیکر ہسپتال میں آخری سانسوں تک انکا خاصہ رہی۔ امی نے بہت سارے پرندے رکھے ہوئے تھے۔خاص طور پر ’’بولنے والا راطوطا ‘‘ہمارے گھر کا فرد بن چکا ہے ۔اس کے پر نہیں کاٹے اس کے باوجود بھی وہ پندرہ سال سے ہمارے ساتھ رہ رہا ہے ۔امی اسے چکن ،فش،بسکٹ ،چاکلیٹ ،پھل ،سبزیاں سب کھلاتی تھیں۔ وہ امی کے بعد سے کافی اداس اداس اور خاموش رہتا ہے۔ ماں کی موجودگی کے تحفظ سے محرومی اور ان کے بغیر سب کچھ کھو جانے کا احساس شدت سے ہورہا ہے،دنیا ویران اوراجڑ ی ہو ئی ہے،آنسو بحر بے کراں ہیں۔ہمیشہ دعا گو رہنے والی ماں کو اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاء فرمائے۔ آمین