پچاس سال قبل متفقہ منظور ہونے والا 1973ء کا یہ آئین ایسی دستاویز ہے جو پاکستان کے ہر شہری کو اس کے حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر، ہر فرد کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر شہری کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اپنی رائے کے اظہار کی آزادی ہو گی، نقل و حرکت کی آزادی ہو گی۔ یونین سازی اور سیاسی جماعت بنانے کی آزادی ہو گی۔مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ معلومات تک رسائی کی آزادی ہو گی۔ پاکستان کے ہر شہری کو منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق حاصل ہو گا۔اس دستاویز کے ذریعے ہر شہری کو ہر سطح پر انصاف کی فراہمی کا یقین دلایا گیا تھا۔ میں نے تین روز پہلے قومی اسمبلی ہال میں منعقدہ آئین کی منظوری کی گولڈن جوبلی تقریب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خطاب سنا۔انہوں نے اپنے دھیمے انداز میں آئین کے تقدس ،اس کی افادیت‘ پارلیمنٹ کی بالادستی‘ اداروں کی توقیر‘ کردار‘ اپنی فیملی کے پس منظر اور تحریک پاکستان کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں آئین پاکستان کے متعلق آگہی کے لئے ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جس نشست پر تشریف فرما تھے وہ رکن اسمبلی اور سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے برابر والی نشست تھی۔سید قائم علی شاہ تقریب میں وہ واحد رکن اسمبلی تھے جنہوں نے 50سال قبل پاکستان کے موجودہ آئین پر اپنے دستخط ثبت کئے تھے۔شاید یہ بات بہت سے لوگوں کے علم میں نہ ہو کہ پاکستان کے لئے آئین سازی کا عمل آزادی کے اعلان سے پہلے یعنی 26جولائی 1947ء کو شروع ہو ہو گیا تھا۔پھر 10اگست1947ء کو اس کو آئین ساز اسمبلی میں زیر غور لایا گیا تھا۔مجھے یہ کہنے میں ذرا برابر بھی تامل نہیں کہ 1973ء کا آئین ایک معجزے سے کم نہ تھا خصوصاً ان مخصوص حالات میں جب قوم اپنے مشرقی حصے کی علیحدگی کے صدمے سے دوچار تھی۔اس آئین پر تین یا چار ارکان نے دستخط نہیں کئے تھے لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ 1973ء کے آئین میں ہر صوبے اور طبقہ فکر کی نمائندگی مکمل طور پر موجود تھی۔میں نے تین دہائی قبل اس آئین کی تیاری میں سب سے کلیدی کردار ادا کرنے والے قادر الکلام قانون دان عبدالحفیظ پیرزادہ سے ان کی اقامت گاہ پر اس آئین کی تیاری‘ اس میں پیش آنے والی مشکلات‘ تمام اہم نکات اور امور کو شامل کرنے کے مراحل‘ مختلف الخیال تمام جماعتوں اور اکابرین کو ہر معاملے پر ایک نکتے پر متفق کرنے جیسے چیلنجوں کے بارے میں تین نشستوں پر محیط انٹرویو میں کم و بیش 100سوالا ت پوچھے ۔ اس پر میں پھر انہی کالموں میں کسی وقت لکھوں گا۔عبدالحفیظ پیرزادہ نے جو بات زور دے کر کہی وہ یہ تھی کہ یہ آئین درحقیقت ملک کی سلامتی یکجہتی اور خود مختاری کی ضمانت ہے۔اس میں درپیش تمام مسائل کا حل موجود ہے۔یہ ہمیں صحیح سمت میں آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتا ہے ،لیکن سچ پوچھیں تو ہمارا المیہ یہ رہا کہ ہم اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل نہ کر سکے۔ پھر سب سے پہلے جنرل ضیاء الحق نے 5جولائی 1977ء کو اس کے گلے پر چھرا پھیرا ،دوسری بار جنرل مشرف نے 12اکتوبر 1999ء کو اس پر کلہاڑا چلایا، پھر جنرل مشرف نے ہی 3نومبر 2007ء کو ایک بار پھر اسے لپیٹنے کی کوشش کی اور آخر میں قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اس پر وار کیا۔میری تجویز تو یہ بھی ہے کہ اسے کاکول اکیڈمی کے سلیبس میں بھی رکھا جائے کہ ملک کی سلامتی اور یکجہتی کے لئے آئین کی کیا اہمیت ہے اور یہ کہ قانون کی حکمرانی کا اصل مقصد کیا ہے۔قومی اسمبلی ہال میں منعقدہ تقریب میں آصف علی زرداری نے بھی خطاب کیا انہوں نے بھر پور اعتماد کے ساتھ کہا کہ پاکستان کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔انہوں نے فخریہ کہا کہ بے نظیر کی شہادت کے بعد اگر وہ پاکستان کھپے کا نعرہ نہ لگاتے تو خدانخواستہ یہ ملک نہیں بچتا۔انہوں نے اپنی طویل گرفتاری کا بھی تذکرہ کیا۔وہ درحقیقت پاکستان سے اپنی محبت پیپلز پارٹی کی قربانیوں اور تاریخ کے اس سفر میں بھٹو کی پارٹی کے کردار پر روشنی ڈال رہے تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کی موجودہ سیاسی الجھتی سلجھتی کیفیت میں آصف علی زرداری کا ایک نمایاں کردار ہے۔وہ اس سسٹم میں جس طرح اپنی حکمت عملی ترتیب دے کر چالیں چلتے ہیں اس میں کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ طویل عرصے تک اپنے خلاف مقدمات کی چومکھی لڑائی لڑنے کے بعد ان کے خلاف وہ بہت کچھ ثابت نہ ہو سکا جس کا شور برپا رہا لیکن ان کے خلاف اس حوالے سے ایک مضبوط تاثر موجود ہے۔ اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ 18ویں ترمیم کے ذریعے انہوں نے آئینی ڈھانچے میں جو بنیادی تبدیلی کی اس کے لئے انہیں کریڈٹ ملنا چاہیے۔عمران خان کی جماعت نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔ میرے خیال میں عمران خان کے ذہن میں یہ خیال جاگزیں ہے کہ وہ اپنا مختلف راستہ اپنا کر مزاحمت کا جو تاثر قائم کرتے ہیں اس سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ان کی موجودہ مقبولیت کے پیچھے جہاں 50سال سے ان کی اسکرین پر موجودگی ہے ۔کہیں وہ کرکٹر ہیں ،کہیں سوشل ریفارمر اور کہیں سیاستدان ۔ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کی خراب کارکردگی اس کیلئے Killerاور عمران کیلئے Booster ثابت ہوئی ہے۔یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جشن آئین کے اس کنونشن میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شرکت کرنی چاہیے تھی یا اس شرکت نے ان کے سامنے متعدد سوالات کھڑے کر دیے اور یہ بھی کہ آئین کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر حکومت اور عدلیہ جس طرح ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں یہ عام پاکستان کو کیا پیغام دے رہے ہیں اور جب میں تشکر کے ان لمحات میں آج عام پاکستانی کے چہرے پر اڑتی ہوئی ہوائیاں دیکھ رہا ہوں تو بہت سی یادوں نے میرے ہاتھ جکڑ لئے ہیں۔ابھی چند روز قبل کی بات ہے میرا یہ نوجوان دوست بھی ان سات لاکھ پاکستانیوں کی طرح ملکی حالات سے دلبرداشتہ ہو کر نیویارک کی فلائٹ سے چند گھنٹے پہلے گلو گیر آواز میں اپنی بیوی طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا میں چند ہفتوں بعد باپ بننے والا ہوں لیکن میری کوشش ہے کہ میرا بچہ اس ملک میں آنکھ نہ کھولے میں اسے اپنی طرح بے بس، محروم اور لاچار نہیں دیکھنا چاہتا۔ مجھے معلوم ہے میں یہاں ایک اچھا صحافی ہوں۔میری عزت ہے ، شناخت ہے اور امریکہ کے شہر نیو یارک میں گمنام زندگی گزاروں گا۔ پٹرول پمپ اور ہوٹلوں پر کام کروں گا ٹیکسی چلائوں گا۔سامان لوڈ ان لوڈ کروں گا۔سو بسمہ اللہ لیکن وہاں مجھے عدم تحفظ کا احساس تو نہیں ہو گا۔ مجھے یہ خدشہ تو نہیں ہو گا کہ میں کبھی کسی اندھی گولی کا شکار بن سکتا ہوں۔ ہاں جہاں تحفظ نہ ہو۔عزت نفس کی ضمانت نہ ہو جہاں زیادتی سے بچنے کے لئے جیب میں پریس کارڈ رکھ کر باہر نکلنا پڑے اور جہاں زندہ رہنے کے لئے کسی با اختیار شخص کو دوست رکھنا پڑے ایسی جگہ حساس لوگوں کے رہنے کے قابل کہاں ہوتی ہے؟ میں اس گولڈن جوبلی کے موقع پر محسوس کر رہا ہوںجیسے میں صدیوں کے جامد اور بدبودار پانی کی کائی پر کھڑا ہوں اور میرے پیچھے تعفن کے ڈھیر لگے ہیں اور سڑ اند میرے دماغ کے تمام مثبت خیالات چاٹ چکی ہے۔