مجھے کشمیر سے بھی زیادہ فلسطین پیارا ہے،مجھے اپنی جان سے بھی عزیز ہے۔مجھے کرہ ارض پر موجود انسانوں میں سب سے بہترین انسان غزہ میں ملے۔میں دکھی دل کے ساتھ ایک تصویر دیکھتا رہا۔ایک معذور بوڑھا ویل چئیرپر بیٹھا،بظاہر وہ تصویر تھی لیکن مجھے یوں لگاوہ مجھ سے کہہ رہا ہے’’تمہیں شرم تو آئی تو ہوگی؟‘‘ندامت کے مارے میں پسینے میں ڈوب گیا۔وہ ایک تصویرتھی جس کے پیچھے ایک اور تصویر ‘ بوڑھے شیخ کی تصویر، جس نے ہر دل کو زخمی کر دیا ۔ اہل فلسطین پون صدی سے اقوام متحدہ کی تراسی قراردادوں کے باوجود اپنی ریاست واپس نہ لے سکے۔وہ ہر بار اپنے رب کے سہارے نکل آتے ہیں۔ان کی یہی مزاحمت مجھے سرشاررکھتی ہے۔مجبور بن کر دشمن کو اپنا گھر بار دینے سے بہتر موت ہے۔ ہم نے اپنی زندگی میں دیکھ لیا کہ امریکا اور اس کے حواری کبھی مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیتے۔جہاں مسلمان ملکوں پر حملہ ہو تا ہے امریکا ان کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہے۔کشمیر کا معاملہ تو دگر ہے۔امریکیوں نے گائے کاپیشاب پینے والوں کا انتخاب کیا ہے تو یہ مسلم دشمنی کی اعلیٰ مثال ہے۔امریکا سے نفرت یوں ہی تو پروانہیں چڑھی۔ہر مسلمان کے دل میں پھر درد سوا ہوتا ہے،دل اس نام نہاد عالمی ٹھیکے دار کی نفرت سے بھر چکے ۔ دکھ جو ہمالیہ سے بڑا اور پاتال تک گہرا ہے ۔ جس نے امت کے دردمندوں کو تڑپایا ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی جیل غزہ ہے،جس میں محصور انسان مسلم دشمنی کا شکار ہیں اور مسلمان حکمران ٹِک ٹِک دیدم،دم نہ کشیدم! ان غیرت سے عاری بدنصیبوں کے لیے یہ دنیا صرف پیٹ کا نام ہے اور یہ پیٹ بس جہنم کی آگ سے بھر سکتے ہیں۔بلی کو بھی جب نکلنے سے روکا جائے تو وہ اپنے پنجے ضرور مارتی ہے۔یہ تیس لاکھ انسان ہیں اور غیرت اور شجاعت ان کی گھٹی میں پڑی ہے۔جہان دیدہ دونوں ٹانگوں سے معذورشیخ احمدیاسین شدت سے یاد آئے ۔انہوں نے ایک زمانے تک اہل عرب کو پکارا تھا ، کمزور پاکر دبا دیے جانے والوں کی طرف متوجہ کیا۔ ’’ اے باشندگان عرب! کیا آپ نے دیکھا کہ میں کس ابتر حال سے دوچار ہوں؟میں بوڑھا عاجز جو اپنے ہاتھوں میں قلم اٹھانے کی سکت رکھتا ہوں نہ ہی ہتھیار۔میں کوئی معروف مقرر نہیں ہوں کہ اپنی آواز سے دلوں کو ہلا ماروں۔نہ ہی میں اپنی کسی ضرورت کو پوری کرنے کے لیے ہل سکتاہوںما سوائے مجھے کوئی اور سہارا دے ۔ میں سفید ریش ضعیف اپنی عمر کی آخری منزلیں طے کر رہا ہوں۔میں وہ ہوں جسے ہر طرح کی امراض اور زمانے کی آزمائشوں نے کچل ڈالا ہے۔میرا سرمایہ اور میراث میرا وہ عزم ہے کہ میں اپنی ذات میں اوروں کے لیے نمونہ چھوڑ جائوں‘ان کے لیے جو ظاہری قوت پر اعتماد رکھتے ہیں۔ افسوس!آپ سب ہٹے کٹے عرب اپنے آپ میں ضعف اور اضمحلال دیکھتے ہیں ۔ اے عرب والو ! تم حقیقتاً کیوں عاجز و صامت بت بنے کھڑے ہو ‘کیا موت کے ڈر سے مرے جاتے ہو ؟ کیا فلسطینیوں کی المناک مصیبتیں دیکھ کر بھی تمہارے دل نہیں پھٹے‘ وہ مصائب جو اﷲ کے غضب میںگھری ہوئی اور امت کی عزت و ناموس کو اچھالنے والی ایک حقیر قوت کے ہاتھوں ہمیں جھیلنے پڑ رہے ہیں ۔اﷲ کے دشمنوں نے ہمارے خلا ف مستقل جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ دنیا نے انہیں شریف قرار دے دیا ہے‘ان قاتلوں ‘مجرموں اور دہشت گردوں سے دنیا ہماری تباہی اور موت میں مدد گار بننے کے لیے معاہدے کر رہی ہے ۔ کیا اس سارے شرمناک ڈرامے سے امت کے حکمرانوں کا سر شرم سے جھکا نہیں…انہیں کوئی غیرت نہیں آئی ؟کیا دنیا کے طول و عرض میں پھیلے امت مسلمہ کے ممالک یہودی دشمنوں اور ان کے عالمی حلیفوں کی چیرہ دستیوں سے یوں ہی آنکھیں بند کیے رکھیں گے؟ مظلوموں کی داد رسی اور ہمارے آنسو پونچھے بغیر ہی دشمنوں سے ہاتھ ملانے کے لیے بے تاب رہے گی ؟ کیا یہ عالمی ادارے اﷲ کے غضب سے بالکل ہی نڈر ہو گئے ہیں کہ ان صہیونی حرکتوں پر غضب ناک نہیں ہوتے اور پکار نہیں اٹھتے کہ اے اﷲ !ہمارے ٹوٹے ہوئے اعضا جوڑ دے ۔ ہماری ضعیفی اور کمزوری پر رحم کھا اور اپنے مومن بندوں کی مدد فرما۔ بوڑھے شیخ کی آنکھوں میں آنسوکے موتی اترے،امت مرحومہ’’اے اﷲ! ہم تجھ ہی سے شکوہ کرتے ہیں ۔صرف اور صرف تجھ ہی سے دعا کرتے ہیں ۔ اے اﷲ !اپنی کمزوری کا حال تجھ ہی سے بیان کرتے ہیں ۔ا پنی تدبیروں کی ناکامی کا گلہ تجھ ہی سے کرتے ہیں ۔ اے اﷲ کہ تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی ہمارا رب ہے جس پر ہمارا بھروسہ ہے۔ اے اﷲ ! فلسطینی قوم کو کسی کا محتاج نہ کرنا‘ تو غیب سے ان کی مدد فرمانا‘ ان کے اندر جدوجہد کا جذبہ تیز رکھنا اور وسائل کا اہتمام کرنا ۔‘‘ تصویر والا بابا مجھے گھور رہا ہے،وہ اللہ کے پاس چلا گیا۔امریکا اسے دہشت گرد کہتا تھا جو دونوں ٹانگوں سے معذور تھا اورامریکا اس سے ڈرتا تھا۔ بابے کی نسل فلسطین کی حکمران ہے اور پوری دنیا ان کے مقابل ہے ،اپنے بیگانے سب۔عرب و عجم کے حکمران جن کو مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے ان کا امتحان شروع ہو چکا ہے ۔ وہ غیرت مندوں کی مدد کو بڑھتے ہیں یا بزدلوں کی طرح اپنی ہی غیرت کا نیلام ہوتے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اے اہل فلسطین ،اللہ تمھارے ساتھ رہے،ہم تمھاری جدوجہد سے دور رہے،ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم دنیا کی محبت اور موت سے نفرت کا شکار ہیں۔ ٭٭٭٭٭