پچھلے چند دنوں سے پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر سیر حاصل گفتگو اور بے لاگ تبصرے تو صبح شام کیے جا رہے ہیں کہ ایسا کیوں ہوا، کیا ایسا ہونا چاہیے تھا یا نہیں ؟ عمران خان کی گرفتاری قانونی تھی یا غیر قانونی ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ان تمام باتوں سے ہٹ کر میں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ کہ پاکستانی قوم کو خوشی منانے کا ڈھنگ ہے نہ غم منانے کا سلیقہ۔ ہم لوگ جہالت کی تمام حدوں کو عبور کرتے ہوئے جب اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں تو یقین جانیے بعض اوقات اپنے پاکستانی ہونے پہ شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم جگ ہنسائی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ الگ بات ہے کہ جنکے دل میں درد ہے وہ ان حالات کو دیکھ کے خون کے آنسو روتے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج کے نام پر جو کچھ ہوا اسکو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ۔ عوام کے حکمرانوں سے لاکھ اختلافات ہوں لیکن یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ اپنے ہاتھوں اپنے ہی گھر کو آگ لگادی جائے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین ہوں یا جوشیلے کارکن ان نجانے یہ اختیار کہاں سے مل جاتا ہے کہ جب چاہیں اٹھیں اور اپنی گلی، محلے، سڑکوں، درختوں پودوں پر چڑھ دوڑیں ۔ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن اس عام آدمی کا کیا قصور جو اپنے جیسے دوسرے عام آدمی کی جہالت و بربریت کا شکار ہو جاتا ہے۔ بحثیت قوم جہاں ہم مظلوم ہیں وہیں جاہل اور جذباتی بھی ہیں۔ عدم برداشت کا رویہ ہماری رگ رگ میں بسا ہے۔ عام حالات میں بھی ہم لڑائی جھگڑے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ٹریفک سگنل کے اشارے کو توڑنا ، تیز رفتاری کے شوق میں دوسروں کی گاڑیوں کو ٹکر مارنا ہو،بینک کی لائن میں لگتے دھکم پیل کرنا ، مار دھاڑ کا کوئی موقع ہم نہیں گنواتے۔ سمجھ نہیں آتی کہ تعلیم و تربیت نام کی چڑیا گھروں سے غائب ہے یا تعلیمی اداروں سے اڑان بھر چکی۔ خوشی کا موقع ہو تب بھی طوفان بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کا موقع ہو، جشن آزادی ہو یا کسی میچ میں جیت جانے کی خوشی ، ہم باآواز بلند پٹاخے چھوڑنے، انتہائی اونچی آواز میں موسیقی سننے، ہوائی فائرنگ کرنے، گلی محلوں میں شور شرابا اور سڑکوں پہ ون ویلنگ جیسی حرکتیں کر کے خوشیاں مناتے اوردوسروں کا سکون برباد کرتے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں اپنے ہی خون پسینے سے بنائی گئی سرکاری و غیر سرکاری املاک کو جس بیدردی سے تباہ و برباد کیا گیا وہ انتہائی افسوناک تھا۔ اپنے قائد سے محبت کا یہ کونسا انداز تھا کہ درختوں پہ رحم کیا گیا نہ جانوروں پہ رحم کیا گیا ۔ جو خبریں اور تصاویر سوشل میڈیا پر دکھائی گئیں انہیں دیکھ کر دکھ ہوا۔ جا بجالگی آگ کو دیکھ کر میں یہ سوچ رہا تھا کہ کیا ان لوگوں میں سے کوئی علامہ اقبال کو جانتا ہے ؟ کیا ان آگ لگانے والوں نے قائدِ اعظم کا نام سنا ہے؟ کیا ان تحریک پاکستان کے خونی قصے یاد ہیں؟ کیا ان کو سرحد پر کھڑے کسی فوجی جوان کی شہادت یاد ہے ؟ اپنی ہی دھرتی کو آگ و خون میں دھکیلنے والوں کو کیا یاد ہے کہ یہ سب انہی کے پیسے سے بنائی گئی املاک ہیں؟ کیا انہیں بھول گیا ہے کہ جلائی گئی تمام سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کی تعمیر نو انہی کے خون کو نچوڑ کر کی جائے گی ؟؟ ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے اندھا دھند توڑ پھوڑ کرنے والے عاشقانِ کیا بھول گئے ہیں کہ اس ملک کی اشرافیہ انہیں کس طرح استعمال کرتی ہے؟ اب اس اشرافیہ کا تعلق بھلے کسی بھی طبقے سے ہو۔۔۔۔ سبھی عوام کو بندر کی ناچ نچا رہے ہیں۔۔۔ اور عوام ان کی ڈگڈگی پہ ناچتے چلے جا رہے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کیساتھ ساتھ تمام عالمی میڈیا میں جس طرح ہمارا مذاق بنا وہ انتہائی افسوناک ہے۔ بلاشبہ ہم نے ایک بے صبری اور شدت پسند قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اسلام محبت، بھائی چارے اور امن و سلامتی کا دین ہے اسکا اظہار ہم اپنے عمل سے کب کریں گے؟؟ آخر کب ہم دنیا کو اپنے رویے سے امت محمدی ہونے کا ثبوت دیں گے۔ آخر کب ہم اپنے غم و غصے اور تکلیف کا اظہار صبر، برداشت اور بردباری سے کریں گے ؟ ہمارے معاشرے میں تحمل مزاجی اور ٹھہراؤ کب نظر آئے گا؟ ہمارے قول و فعل سے کب دنیا یہ جان پائے گی کہ یہ اس نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکار ہیں جنہوں نے اپنوں کیساتھ غیروں سے بھی حسن سلوک سکھایا ہے۔ نا صرف انسانوں بلکہ درختوں، پودوں، فصلوں، جانوروں اور پرندوں کی حفاظت اور سلامتی کو ہر طور مقدم رکھا ہے۔ دنیا بھر میں لوگ حکومتوں سے اپنے اختلافات کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہوتا ہے لیکن ایک پتہ نہیں ٹوٹتا، کوئی ٹائر نہیں جلتے، کوئی عمارتیں نہیں جلتیں اور کوئی توڑپھوڑ نہیں ہوتی۔ بنا کسی مار دھاڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے عوام اپنی بات منواتی ہے لیکن ایسا وہیں ہوتا ہے جہاں باشعور اقوام اپنی طاقت سے بخوبی آگاہ ہوتی ہیں۔ جہاں ہاتھوں اور ڈنڈوں کی بجائے الفاظ اور دلائل بولتے ہیں۔ جہاں شعور کھل کے بولتا ہے اور عقل کے استعمال صحیح وقت اور صحیح مقام پر کیا جاتا ہے۔ جہاں ایک میدان میں لاکھوں کی عوام اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ عوام ووٹ کی طاقت سے ذیادہ اپنے شعور کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مطالبات منواتے ہیں۔ اب بھلے اس شعور سے حکومت بدلے یا حکمران ، جیت ہمیشہ عوام کی ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ پاکستانی قوم کے حالات پچھلے پچھتر سالوں میں نہیں بدلے اور نہ ہی اگلے پچھتر سالوں میں بدلیں گے جب تک کہ عوام ذہنی پختگی اور سیاسی شعور کا صحیح جگہ استعمال نہیں کرتی۔ اپنے لیڈر سے جذباتی وابستگی اور اسکا والہانہ اظہار بھی عقل و دانش مندی کا تقاضا کرتا ہے۔ عوام کی سیاسی وابستگی بھلے کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو وطن کی سلامتی ، خودمختاری، آزادی اور امن وامان کی صورتحال کسی طور پر متاثر نہیں ہونی چاہیے اور یہی کسی بھی قوم کے ذہین اور عقلمند ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔