نوجوانی میں محنتوں مرادوں سے ملی سرکاری نوکری چاہے سروس کمشن کے ذریعے ہی کیوں نہ حاصل کی گئی ہو، خدمات کی انجام دہی کے لیے اکثر اَن دیکھی بستیوں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے سر میں بھی ’اپنا شہر‘ کا ایسا سودا سمایا کہ سیالکوٹ کینٹ کے پُر رونق علاقے میں فیڈرل گورنمنٹ کی آسان سی لیکچرشپ کو پسِ پُشت ڈال کے پنجاب سروس کمشن کی وساطت سے منتخب ہوئے۔کسی معاملے میںسیاسی اثر رسوخ کے لیے کبھی ذہن مانا ہی نہیں۔ اسی ناقدری کی بنا پر مجھے ساڑھے تیرہ ماہ (30 مئی 1991ئ۔ 13 جولائی 1992ئ) دورانیے پر مشتمل کمالیہ کا بَن باس عطا ہوا۔کمالیہ لاکھ اہلِ کمال کا شہر سہی لیکن جو شخص تازہ تازہ تین سال ، مال روڈ ، انا رکلی کی زلفوں کے سائے اور سیالکوٹ کینٹ میں اِیٹ مور، سلور سپون، وائٹ پرل کے ہمسائے میں گزار کے آیا ہو، اُس کے لیے تو یہ بستی سسی کا تھل، مجنوں کا ویرانہ، انگریزوں کا کالا پانی اور اُردو داستانوں کی چوتھی کھونٹ تھی۔ایسی ویرانی کہ جہاں غالب ’رہیے اب ایسی جگہ‘…، اقبال ’چھوٹے سے جھونپڑے‘ … انشا کوچ کرنے اور احسان دانش’یہیں رہنے لگوں‘ کے لیے بھی تیار نہ ہوتا۔رہنے کو جو مکان میسر آیا، اس کے سامنے ایک میٹرو پولائٹ قبرستان تھا،جس میں شہر کمالیہ سے زیادہ آبادی جانے کب سے محوِ استراحت تھی۔ دونوں طرح کی آبادیوں کی صحبت سے مایوس ہو کر لکھنے لکھانے کے مُودھڑے منھ پڑے ہنر سے پھر سے دوستی جوڑنے کی ٹھانی۔یعنی تنہائی کے جنگل کو قلم کے کلہاڑے سے کاٹنے کا فیصلہ ہوا۔اورینٹل میں چند مزاحیہ مضامین اور بعض بے تکلف دوستوں کے خاکوں سے قلم کا ’جھاکا‘ کھل چکا تھا۔ سیالکوٹ کے دورانیے میں مشتاق احمد یوسفی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی پر لکھے خاکوں کی پسندیدگی نے حوصلہ دیا۔ چنانچہ ’چل میرے خامہ بسم اللہ‘ کہہ کے شروع ہو گئے۔ اسی زمانے میں 1992ء والا ورلڈ کپ بھی شروع ہو گیا، چنانچہ آسٹریلیا کی رنگا رنگا وادیوں میں جاری ورلڈ کپ اور کمالیہ جیسے ویران نگر میں برپا ’ورڈ کپ‘ زور و شور سے جاری رہا۔ ہوتے ہوتے پہلی کتاب کا مسودہ تیار ہو گیا۔ خط کتابت کا زمانہ تھا، چنانچہ ممتاز مفتی سے دھواں دھار لفظی پھلجھڑیوں نے کتاب کا نام ’قلمی دشمنی‘ سجھایا۔ ساتھ ساتھ مشتاق احمد یوسفی اور انور مسعود سے نرم پھوار قلمی دوستی بھی چلتی رہی۔ تینوں احباب نے کتاب پر فلیپ لکھنے کی ہامی بھی بھری۔ اس طرح سرکاری طور پر مسلط کی گئی جوئے شِیر مہم کو ہم نے قلم کے تیشے سے سوارت کیا۔ اس کے بعد شیخوپورہ کے پرنسپل ہاؤس میں گزارے چودہ سالوں نے شادی، پی ایچ۔ ڈی، چار بچوں کی آمد اور متعدد کتب کی اشاعت کو ممکن بنایا۔ پھر یہ سفر اسلامیہ کالج سول لائنز، سائنس کالج وحدت روڈ سے ہوتا ہوا ایف سی پہ آ کے رُکا تو زندگی میں ایک ٹھہراؤ سا محسوس ہوا۔ انھی دنوں میں ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والی ہماری ایم فل اُردو کی نفیس اور موہنی سی طالبہ فاطمہ افضل نے شاید تیسری چوتھی بار دریافت کیا کہ ’سر آپ ٹوبہ کب آئیں گے؟‘ فاطمہ کی والدہ کا تعلق چونکہ ہمارے شہر شیخوپورہ سے ہے، جنھیں ملوانے وہ گھر بھی لاچکی تھیں۔ شاید اسی لیے وہ ہم میں کسی ننھیالی خلوص یا خُو بُو کی تلاش میں تھی۔ ہماری پرورش چونکہ گھاگ سیاست دانوں کے وعدے سن سن کے ہوئی تھی، چنانچہ ہم نے بھی اس کے سوال کا ایک سیاسی سا جواب تیار کر لیا کہ ’جب تمھاری شادی ہوگی!‘ رمضان کے آخری عشرے میں فاطمہ کا وٹس ایپ مسج آیا۔ پہلے تو ہم اسے عید کی گھڑی گھڑائی مبارک باد سمجھے۔ غور کیا تو یہ شادی کا دعوت نامہ تھا۔ تلامذہ کے ساتھ کیے گئے وعدے کو مَیں حتی الوسع پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ٹوبہ ٹیک سنگھ کا نام منٹو کے افسانے کی وجہ سے بھی ہانٹ کرتا ہے۔پھر اکتیس سال بعد ٹوبہ سے تھوڑے ہی فاصلے پہ واقع کمالیہ کی یادوں نے بھی ذہن کے مثبت علاقے میں رینگنا شروع کیا۔ایسے مہم پرور مواقع پہ عموماً میرے بڑے بھائی اور سیر وسیاحت پہ ہر دم قائل و مائل ڈاکٹر علی محمد خاں دست گیری کرتے ہیں۔چنانچہ ان کے آگے اس شادی کو پکنک کا رنگ دینے کی تجویز رکھی۔انھوں نے جھٹ ٹوبہ میں اپنا ایک عزیز اور اسسٹنٹ کمشنر شاگرد ڈھونڈ نکالا۔ گاڑی اور ڈرائیور سمیت اپنی معیت کا بھی یقین دلایا۔ جیسے تیسے بیگم سے سفری این او سی بھی جاری کرا لیا۔ چنانچہ شادی سے ایک روز قبل ہم لاہور تا کراچی کے کشادہ ایم تھری موٹروے گامزن تھے۔ ٹوپی، تسبیح، عینک سے مسلح و مرصع بارِیش ڈرائیور غلام رسول کو ہم نے راستے کی چائے کے فوائد سے ورغلانے، پھسلانے کی لاکھ کوشش کی لیکن اس نے’’میرا روزہ ہے‘‘ کہہ کر ہمارے جملہ ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔ایسے میں ہماری تمام ہمدردیاں نیکی لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ تھیں۔ اس مجسم نیک ڈرائیور نے ہمیں دنیاوی رغبتوں سے ورا ورا، ڈھائی گھنٹوں میں ٹوبہ کے اس گیسٹ ہاؤس میں جا اُتارا جہاں ایک خوبرو نوجوان ہمارا منتظر تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا نعمان منظور ڈوگر کے نام سے تعارف کرایا۔ ہمارے قیام کے دورانیے میں وہ ہماری خدمت میں مسلم کمرشل بنک سے بھی زیادہ پیش پیش رہا۔ایسے سرکاری افسر ہمیں کم کم دیکھنے کو ملتے ہیں،جن کے چہرے پہ بے لوث مسکراہٹ، دل میں قومی مفاد کا درد،دیانت دارانہ کام کرنے کا جذبہ اور اساتذہ کے لیے زمانۂ طالب علمی سے بھی زیادہ خلوص و احترام کندہ ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ گیسٹ ہاؤس میں ہمیں دو طرح کے اے سی کی سہولت حاصل تھی۔ شام کو ان کی ہمرہی میں منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تلاش میں نکلے تو وہ ہمیں اَسّی ایکڑ پر مشتمل ایک طلسماتی کالونی، جسے سعودیہ پلٹ نوجوان انجنئیر زعیم ولی نے ڈیزائن کیا ، لے گئے۔ وہیں ’ولی اصیل شنواری‘ ریسٹورنٹ میں روسٹ چانپوں اور شنواری دُنبہ کڑاہی، ایسا دُنبہ جسے مار مار کے نہیں پال پال کے دُنبہ بنایا گیا تھا، نے معدے اور ایمان کو روشنی بخشی۔ اگلا دن کمالیہ یاترا کا تھا، جس کا آغاز اپنے ایک اور عزیز شاگرد علی احمد سے ملاقات سے ہوا۔ علی ہمیں میرے ابتدائی کالج لے گیا، جہاں پرنسپل کے ساتھ ساتھ اپنے اس زمانے کے ایک کولیگ سلام دین اور شاگرد (اب استاد) محمود اعظم سے ملاقات ہوئی۔ طلبہ و طالبات سے مختصر خطاب کیا۔ علی ہی کی وساطت سے لاثانی والوں کی طرف سے ہماری نفیس کھدر نوازی ہوئی۔ بعد ازاں اپنی پنجاب یونیورسٹی کی اب تک دھان پان اور نفیس کلاس فیلو، جو مقامی کالج میں پروفیسر ہے، ڈاکٹر رؤف ظفر بٹ سے شادی اور دونوں بیٹیوں کو ڈاکٹر بنا کر،یہیں سیٹل ہے۔ گھر، پولی کلینک اور چائے کے لوازمات، سب نفاست کا اعلیٰ نمونہ۔ نام شاہین ہے مگر اب تک چھپکلی سے جان جاتی ہے۔ واپس ٹوبہ پہنچے تو ابھی شادی میں کچھ وقت تھا، عجلت میں جہلم اور چناب کے سنگم پہ واقع 1940ء میں تعمیر کردہ ہیڈ تریموں دیکھنے کا پروگرام بنا۔ ڈوگر صاحب کی ماہرانہ ڈرائیونگ میں یہ سفر بھی بخیر و خوبی طے ہوا۔ دو بجے شادی میں پہنچے۔ فاطمہ کے سر پہ ہاتھ،ہاتھ پہ سلامی،سلامی میں خلوص رکھا اور ہر طرف سے برستی محبتوں کی پھوار میں واپسی کی ٹھانی۔