کسی نے کنفیوشس سے پوچھا کہ اگر کسی قوم کے پاس تین چیزیں انصاف‘ معیشت اور دفاع ہوں اور اس کو کسی مجبوری میں ایک چیز چھوڑنا پڑے تو اس کون سی چیز چھوڑ دینی چاہیے۔ کنفیوشس نے کہا دفاع چھوڑ دے۔ سوال کرنے والے پھر پوچھا اگر دو چیزیں چھوڑنی پڑیں تو!! کنفیوشس نے جواب دیا دفاع اور معیشت چھوڑ دے سوال کرنے والے نے حیران ہو کر پوچھا اگر معیشت اور دفاع نہیں رہے گا تو آزادی کیونکہ قائم رہ سکتی ہے۔ کنفیوشس نے کہا قوم پیٹ پر پتھر باندھ کر اپنی آزادی کا دفاع کرے گی۔ انصاف چھوڑ دیا تو دفاع اور معیشت جتنی بھی مضبوط ہو قوم کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔کنفیوشس نے قوم کی بقا کا جو نسخہ بتایا تھا دنیا نے اس کا عملی مظاہرہ صدیوں بعد ظہور اسلام کے وقت دیکھا جب مسلمانوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر خندق کھودی اور اپنی آزادی، خود مختاری اور مذہب کا دفاع کیا۔ حضرت علیؓ کا قول ہے معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر نہیں۔ ظلم ناانصافی کے کوکھ سے جنم لیا کرتا ہے۔ اسے پاکستان اور پاکستانیوں کی بدقسمتی کہا جائے یا اعمال کا نتیجہ کہ خدا نے مملکت خداداد کو ہر قسم کی نعمتوں اور خزانوں سے نوازا مگر ہم ناانصافی کی راہ پر چل نکلے۔ ایٹم بم بنا لیا انصاف کی فراہمی کے لئے نظام عدل نہ بنا سکے۔ ہمارا دین انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے کسی کی امارت و مرتبے کو اہمیت نہیں دیتا ، وہ تو گواہی کے ضمن میں میں بھی اس بات کا حکم دیتا ہے کہ گواہی دیتے وقت بھی ا انصاف کو ملحوظ رکھو ،خواہ تمہارے سامنے والدین اور رشتے دار ہی کیوں نہ ہوں لیکن پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی کا یہ عالم ہے کہ سپریم کورٹ قتل کے الزام میں دو بھائیوں کو بے گناہ قرار دیتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ معصوم تو برسوں پہلے انصاف کی سولی چڑھ چکے۔ رمضان میں افطار سے قبل پان کی دکان کھولنے کے جرم میں مجسٹریٹ دکاندار کو 5دن کی سزا دیتا ہے مگر اس کی رہائی کی روبکار آنے میں 6 سال لگ جاتے ہیں۔ جھوٹے مقدمات میں ہزاروں خواتین و حضرات انصاف ملنے کی آس میں جیل میں ہی ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر جاتے ہیں۔ اسی لئے تو مائیں بوڑھیاں دعا دیتی ہیں’’ بیٹا اللہ تجھے تھانے، کچہری اور ہستپال سے محفوظ رکھے کیونکہ جانتی ہیں کہ کچہری کی اینٹیں بھی پیسے مانگتی ہیں۔ یہاں انصاف کی دیوی کی آنکھ پر پٹی بندھی ہے اور انصاف کا پلڑا دولت کے بغیر جھکتا نہیں!! پاکستانی نظام عدل ایسا مے خانہ ہے جس میں کار پختہ کاراں ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ نشور واحدی نے کیا خوب کہا ہے: قدم مے خانے میں رکھنا بھی کار پختہ کاراں ہے جو پیمانہ اٹھاتے ہیں وہ تھرایا نہیں کرتے پختہ کار نہیں تو واپڈا کا ٹرانسفر گھر کے دروازے سے ہٹوانے میں 22 سال لگ جائیں اور پختہ کار ہو تو سزا یافتہ مجرم کو علاج کے لئے ملک سے باہر جانے میں 22گھنٹے بھی نہ لگیں۔ گھر کے تہہ خانے سے ضمانتیںہوں، چھٹی کے روز قاضی منصب پر بیٹھ جائیں اور پختہ کار کو انصاف فراہم کریں۔ صرف عدالتیں ہی کیوں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی صرف طاقت کی ہی زبان سمجھتے ہیں۔ جس ایف آئی اے نے میاں شہباز شریف اور ان کے فرزندگان کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات بنانے تھے اسی ایف آئی اے کے افسران نے عدالت میں ہاتھ جوڑ کر اعلان کیا کہ منظور پاپڑ فروش اور مقصود چپڑاسی کے حمزہ شہباز اور وزیر اعظم کے اکائونٹس میں پیسے جمع کروانے کے کوئی ثبوت ہی ان کے پاس نہیں۔ایف آئی اے بھی کیا کرے احمد مشتاق نے کہا ہے نا: اس معرکے میں عشق بیچارا کرے گا کیا خود حسن کو ہیں جان کے لالے پڑے ہوئے ایف آئی اے کا مقدمات بنانے اور سزا دلوانے کا جنون تو رفوہونا ہی تھا جیسے عشق دیکھ رہا تھا کہ حسن تو خود اپنی دی ہوئی سزا ئیں معاف کر رہا ہے۔ اقتدار سزا یافتہ مجرموں کو بے گناہ قرار دینے کے لئے قانون تبدیل کر رہا ہے۔ مجرم یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ قانون کے سامنے اس وقت تک پیش نہیں ہو گا جب سزا دینے والوں کو’’ سزا ‘‘نہیں مل جاتی۔’’پہلے مقدمات ختم کرو پھر پاکستان آئوں گا‘‘۔ اقتدارکا ایک نقطہ کیسے مجرم کو محرم بناتا ہے اس پختہ کاری پر تو خود حکومت کی اتحادی جماعت کے اعتزاز احسن یہ بتا رہے ہیں کہ شریف خاندان کے مقدمات کون ختم کروا رہا ہے وہ انصاف کی اس برق رفتار فراہمی کو ہی جرم قرار دے رہے ہیں۔ اعتزاز کے اعتراض پر احمد ملک فرما رہے ہیں کہ اعتزاز کے پاس ثبوت ہیں تو عدالت جائیں کیونکہ احمد ملک جانتے ہیں کہ عدالتوں نے تو جن ثبوتوں کی بنا پر سزا دی تھی ان ثبوتوںکے بے وقعت ہونے ہر ہی تو مجرموں کو بے گناہ قرار دیاجا رہا ہے۔ ان حالات میں عمران خان کی تحریک کے ’’انصاف‘‘ کاعلم بلند کرنے کے دعوے ہیں جبکہ ہوائوں کے رخ بدل چکے۔ ہوائیں انصاف فراہم کرنے والوں کو خود کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہیں۔ کوئی تو ہے جو قانون انصاف یہاں تک کہ صاحبان اقتدار سے بھی زیادہ طاقتور ہے وہ جو نواز شریف کے وزیر اعظم اور شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے شریف خاندان پر مقدمات بنوا کر ان کو سزا دلادیتا ہے۔ شہباز شریف کی حکومت میں ہی ان کے بیٹے سلمان کو شہباز کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیتا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف وزیراعظم کی کرسی ہوتے ہوئے بھی مجرم قرار دیے جاتے ہیں ۔ مگر جب ہوا کا رخ بدلتا ہے تو تمام داغ دھل بھی جاتے ہیں۔ان ہوائوں سے لڑناکسی ایک شخص یا جماعت کے بس کی بات نہیں اس کے لئے پوری قوم کو اٹھنا ہو گا۔ان حالات میں پاکستانیوں کو وہ بات سمجھنا ہو گی جو بہادر شاہ ظفر کو رنگوں کی جیل میں سمجھ آئی تھی: پھر آنکھیں بھی تو دیں ہیں رکھ دیکھ کر قدم کہتا ہے کون تجھ کو نہ چل، چل سنبھل کر چل