سانحہ مری کی گرد اب بیٹھ رہی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک عجیب سانحہ تھا کہ پوری قوم تڑپ اٹھی۔ غلطی کسی کی بھی ہو اتنا بڑا جانی نقصان پوری قوم کو افسردہ کرگیا۔ غلطی کا تعین بھی نہایت ضروری ہے کہ آئندہ ایسے حادثات سے بچا جا سکے اور اس کے ذمہ دار لوگوںکو نشان عبرت بنایا جا سکے۔ دنیا میں ایسے حادثات ہوتے رہتے ہیں‘ کہیں سمندری طوفان ساحل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور کہیں زلزلہ اپنی تباہ کاریاں پھیلاتا ہے۔ اس حادثے کے بعد حکومت اور اپوزیشن دونوں کا ردعمل پوری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ حکومت نے بغیر کسی تحقیق کے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ اس سانحے کے ذمہ دار عوام خود ہیں۔ جب حکومت وقت خود تحقیقات سے پہلے ہی اپنا فتویٰ صادر کر دے گی تو تحقیقات کا خاک نتیجہ نکلے گا۔ دوسری طرف اپوزیشن نے اس انسانی المیے پر بھی حادثے کے شکار لوگوں سے ہمدردی کی بجائے اسے حکومت کے خلاف جاری مہم کو اور تیز کرنے کے لیے استعمال کیا۔ جماعت اسلامی کے علاوہ کسی سیاسی جماعت کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ حادثے کے شکار لوگوں کے لیے کوئی کیمپ ترتیب دے یا اپنے کارکنوں کے ذریعے لوگوں کی مدد کرنے کا کوئی منصوبہ بنائے۔ سارا زور حکومت کی مذمت اور تضحیک پر دیا گیا اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا تو وہ پی ٹی آئی حکومت کے آغاز سے ہی کر رہے ہیں۔ سب لوگ جمہوریت کے علمبردار ہیں اور ووٹ کا فیصلہ قبول کرنے کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں ہیں۔ اس ملک کا ہر انتخاب متنازعہ ہے۔ صرف جیتنے والی پارٹی انتخاب کو درست قرار دیتی ہے اور باقی سب دھاندلی کا واویلا کرتے ہیں۔ انتخابی سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے بات چیت پر بھی کوئی تیار نہیں ہے۔ عدالتوں کے بھی وہی فیصلے قابل قبول ہیں جو اپنے حق میں ہیں۔ باقی فیصلوں کے خلاف اعلان جنگ ہے اور اگر مواقع مل جائے تو ملک ہی سے فرار کی حکمت عملی اختیار کی جاتی ہے۔ جیل جانا پڑے تو فوراً بیمار پڑتے ہیں اور تمام سیاسی اور اہل ثروت مجرم ہسپتال کو گوشہ عافیت بناتے ہیں۔ قید کا پورا عرصہ پرتعیش ہسپتال میں گزارتے ہیں اور باہر آ کر اپنے قید و بند کی صعوبتوں کی جھوٹی کہانیوں سے اپنے کارکنوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے وہ سیاستدان جو اربوں روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں اور جو علی اعلان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں معلوم ہی نہیں کہ کون سا فرشتہ ان کے اکائونٹ میں اربوں روپے جمع کروا گیا ہے‘ وہ بھی پارسائی کے دعوے دار ہیں اور ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم ہر تقریر میں مافیاز کا رونا روتے ہیں‘ اور ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔ وزیراعظم نے جو تسلیم کیا ہے کہ ان کی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی احتساب میں ناکامی ہے۔ احتساب کے نام پر ہی تو لوگوں نے حکومت ان کے حوالے کی تھی۔ اگر وہ تقریباً تین چوتھائی عرصہ اقتدار گزر جانے کے باوجود احتساب نہیں کر سکے تو اس کا ذمہ دار کون ہے۔ ایک وقت تھا کہ لوگ وزیراعظم کی تقریر کا انتظار کرتے تھے کہ وہ مافیاز سے نبٹنے کے لیے کئی لائحہ عمل کا اعلان کریں گے لیکن اب وہ وقت آ گیا ہے کہ لوگوں کو پتہ ہوتا ہے کہ وزیراعظم کی تقریر کیا ہوگی او رلوگوں کو ایک ہی تقریر بار بار سن کر تقریباً زبانی یاد ہو چکی ہے اور وہ کس طرح ہر برائی کا ذمہ دار مافیاز کو ٹھہرائی گے۔ پاکستان میں پراپرٹی کی ذمہ دار سابق حکومتیں ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اگر آپ مافیاز کو قابو میں نہیں لا سکتے تو آپ نے حکومت میں آنے کا ارادہ کی کیوں کیا تھا۔ آپ کا تو مشن ہی پاکستان میں انصاف کی حکمرانی اور مافیاز کا خاتمہ تھا۔ عوام کب تک آپ کی تقریروں سے دل بہلائیں گے۔ یہ تو آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کو نالائق اور کرپٹ اپوزیشن ملی ہے۔ اگر اب بھی پی ٹی آئی کو ووٹ ملیں گے تو اس کا کریڈٹ آپ کی کارکردگی سے زیادہ اپوزیشن جماعتوں کے حسن کارکردگی کو جائے گا۔ وزیراعظم ہر تقریر میں عثمان بزدار کی تعریف کرتے ہیں اور عوام کی کوتاہ بینی کا شکوہ کرتے ہیں کہ ان کے بڑے بڑے کارنامے عوام کی آنکھ سے اوجھل ہیں۔ درحقیقت اب تو پی ٹی آئی کے بڑے ہمدردوں کے لیے بھی ان کا دفاع کرنا مشکل ہورہا ہے۔ کے پی میں پی ٹی آئی کی پہلی حکومت کے کامیاب ترین وزیراعلیٰ وزیر دفاع پرویز خٹک کا وزیراعظم کے ساتھ حالیہ مکالمہ بھی اس کی درخشاں مثال ہے۔ اب وزیراعظم کے سارے حواری یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ پرویز خٹک سے ایسا کوئی مکالمہ ہوا ہی نہیں ہے حالانکہ پی ٹی آئی اس بات کا کریڈٹ لے سکتی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں وزیراعظم اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ان کے وزراء ان سے اختلاف کر سکیں۔ ورنہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں صرف اختلاف زبان پر لانے کی جو قیمت چوہدری نثار نے ادا کی وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ عمران خان نے اپنے کامیاب ترین وزیراعلیٰ کو کیوں دوبارہ وزیراعلیٰ بنانا پسند نہیں کیا۔ بعض مبصرین پرویز خٹک کے اختلاف رائے کو پی ٹی آئی چھوڑنے کا پیش خیمہ بھی قرار دے رہے ہیں۔ اس واقعے سے پہلے ان کے چند قریبی عزیز و اقارب بھی پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اپنے عہد اقتدار میں ابھی تک بہت بڑے کارنامے تو انجام نہیں دے سکے لیکن ملک کا نظم و نسق بھی بہتری کی طرف گامزن نہیں ہو سکا۔ وہ ایک اچھی ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کی مردم شناسی بھی مشکوک ہے ۔ انسان کو غلطی برباد نہیں کرتی لیکن غلطی پر اصرار نہایت خطرناک ہوتا ہے۔ بے شک عمران خان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن جن معاملات کا بھی وزیراعظم نے ذاتی نوٹس لیا وہ منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکے۔ اگرچہ وزیراعظم کے حواری ان واقعات کی ذمہ داری عدلیہ پر ڈال رہے ہیں لیکن عوام تو وزیراعظم کو اپنے ووٹ سے منتخب کرتے ہیں اور اسی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ملک کو اتنے اچھے طریقے سے چلائے کہ جلدی اور سستا انصاف مہیا بھی ہو اور ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ اگر عمران خان ناکام ہوئے تو یہ ان کی ذاتی ناکامی تو ہوگی ہی لیکن آئندہ کے لیے بھی غیر روایتی سیاستدان کے لیے اقتدار کا حصول مشکل ہو جائے گا۔