مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح مرحومہ کی رحلت آٹھ اور نو جولائی کی درمیانی شب ہوئی تھی‘اللہ رب العزت جل شانہ سرور کائنات ﷺ کے مقام محمود کے صدقہ سے ان کے درجات بلند کرے ۔ تمام سیاسی جماعتیں اور عوام جمہوریت کا راگ الاپتے کے باوجود قومی روایات و اقدار پر ایک نظر ڈالنا گوارا نہیں کرتے کہ مادر ملت نے پاکستان میں آمریت کو پوری قوت اور جرات کے ساتھ للکارا، ان کی برسی پر دو لفظ ہی کہہ دیں‘چاہیے تو یہ کہ موجودہ حالات میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح مرحومہ کی برسی کے موقعہ پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کرتے، جمہوریت، جمہوریت کے استحکام اور بحالی کیلئے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح مرحومہ نے جو جنگ لڑی، نئی نسل کو اس جنگ جمہوریت سے آگاہ کرتے، اس وقت مسلم لیگ کے نام پر جو چہرے بھی نظر آتے ہیں۔ انہوں نے مسلم لیگ کے نام کے ماسک چہروں پر چڑھائے ہوئے ہیں‘ 9 جولائی کو محترمہ مادر ملت فاطمہ جناح مرحومہ کی برسی منائی گئی‘ حضرت قائداعظم کی رحلت سے لیکر اپنی رحلت تک مختلف ایام کے موقعہ پر وہ اپنا پیغام قوم کے نام جاری کیا کرتی تھی، جسے حکومت وقت سنسر کی تلوار چلانے کے بعد اخبارات کو شائع کرنے کی اجازت دیتی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح مرحومہ کے کس پیغام سے اپنے کالم کا آغاز کروں‘ ہر بیان ہر پیغام آتش سیال ہے لہذا پاکستان کے سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ خاں جمالی کا ذکر کئے بغیر بات آ گے بڑھتی نظر نہیں آتی کیونکہ میر ظفر اللہ خاں جمالی واحد وزیراعظم پاکستان ہیں؛ جنہوں نے 2003ء کے سال کو مادر ملت کا سال قرار دیا تھا تاکہ پاکستان کے حصول اور جمہوریت کے استحکام کیلئے مادر ملت کی جدوجہد کو اجاگر کیا جا سکیتاکہ پاکستانی قوم ان کے کردار اور تعلیمات سے رہنمائی حاصل کر سکے۔ پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خاں نے کنویشن مسلم لیگ کے بینر تلے اپنے ہی بنیادی جمہوری نظام کے تحت جب صدارتی انتخابات کا اعلان کیا اور عوام سے ووٹ کا حق چھین کر صرف بی ڈی ممبر کو ہی حق ووٹ دیا تو آج جمہوریت کے تمام دعویٰ دار اور چمپئن کے ابداد اجداد اور یہ خود ایوب خاں کی آمریت کی چھتری تلے پناہ لئے ہوئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کنویشن مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے اور ان کی نگرانی میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف مہم چلائی جا رہی تھی۔اس وقت ون یونٹ کے تحت ہم مغربی پاکستان کے شہری تھے اور حالیہ پنجاب میں واحد شہر لائل پور (موجودہ فیصل آباد ) کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ جنرل ایوب خاں کو صدارتی انتخاب میں لائل پور سے شکست ہوئی تھی۔ لہٰذا مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح مرحومہ نے دھوبی گھاٹ اقبال پارک کے جلسہ عام میں آمریت کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ آج کل پاکستان کے عوام سیاسی اور بنیادی حقوق سے محروم ہیں، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ یہ جمہوریت پسند ہیں، ہم جمہوریت کی بحالی کا عزم لیکر میدان میں اترے ہیں‘ سیاسی قیادت کی غلطیوں سے وہ ماحول پیدا ہوا، جس کے نتیجہ میں موجودہ صورت حال پیدا ہوئی اور عوام کے سر پر ہر دور میں جمہوریت کے نام پرآمریت نے اپنے ڈانڈا چلایا ہوا ہے۔ آمریت کسی بھی زاویہ نگاہ سے عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی‘ یاد رکھیں کہ جمہوریت ہمارے لئے ایک طرز زندگی ہے‘ ہم نے قائداعظم کی قیادت میں سامراجی قوتوں کے خلاف جو جنگ لڑی تھی، اس کا مقصد تھا کہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں آزادی اور عزت کے ساتھ اپنی زندگی اپنے وطن میں بسر کر سکیں تاکہ تمام طبقات مساوی اور با مقصد زندگیاں گزر سکیں اور ایسے ماحول میں سانس لیں جہاں خوف اور بد عنوانیوں کا دور دورہ نہ ہو‘ ہم اس حقیقی پاکستان کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا۔ آج جبکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی تعلیمات، ان کی آمریت کے خلاف جدوجہداور جس انداز میں ہر طرف جبر کے پہرے تھے: مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے ہمیں اپنے کردار, عمل اور پیغام سے جو درس دیا‘ وہ درس ایک روشن مینارہ کا درجہ رکھتا ہے: فاطمہ نور نگاہ قائداعظم سلام آپ کو تعظیم سے کرتا ہے یہ پرچم سلام مادر ملت وقار سر زمیں ناز وطن آپکو اہل وطن کا ہر گھڑی ہر دم سلام ماؤں بہنوں بیٹیوں کی رہنمائی جن پہ کی پیش کرتے ہیں اپنی وستوں کے پیچ و خم سلام روح قائد کی بھی یہ آواز آتی ہے ہمیں اسے شیہ و غمگسار و خواہر و عدم سلام نام بھی ایسا کہ جو ہے سر اسر پاکیزگی کام بھی ایسے کہ بھیجے جانیے پیم سلام بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح جب گورنر جنرل پاکستان تھے‘اسی وقت ملک میں محلاتی سازشوں کا آغاز ہوچکا تھا‘ مادر ملت مخترمہ فاطمہ جناح ملک میں آمریت کے پہلے حملے کیخلاف سینہ سپر ہوگئیں مگر ان کے خلاف مسلم لیگ کو ڈھال بنانے کی کوشش کی گئی حالانکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح 28 فروری 1948ء کو مسلم لیگ کی صدارت سے سبکدوش ہوگئے‘ وہ پاکستان کو کسی بھی سیاسی جماعت کے سربراہ کی بجائے بانی و رہبر کی طرح دنیا میں ایک اعلی مقام دلوانے کے خواہاں تھے لیکن قیام پاکستان کے بعد سیاستدانوں‘بیورو کریسی اور حکمرانوں کے طور طریقوں نے قائد اعظم کو بھی بہت زیادہ رنجیدہ کر رکھا تھا۔ قائد اعظم ان کی تربیت کرنا چاہتے تھے پر شائد قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور قائد اعظم پاکستان کے قیام کے صرف 13 ماہ بعد وفات پاگئے۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی رحلت کے بعد بھی ملک میں محلاتی سازشوں کا خاتمہ نہ ہوسکا۔ مخترمہ فاطمہ جناح کی 56 ویں برسی پر ہر محب وطن پریشان ہے: ایک اور برسی گزر گئی، عوام کو جدوجہد جمہوریت کے ثمرات کا پھل کب میسر آئے گا؟