روئے سخن نہیں تو سخن کا جواز کیا بن تیرے زندگی کے نشیب و فراز کیا بہتر ہے آئینے کے مقابل نہ آئیں ہم تو جو نہیں تو خود سے بھی راز و نیاز کیا یہ شہرسنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئینے، اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا۔ایسے ہی ایک شعر ذھن میں آ گیا اور یہ کہ تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں، آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ۔اپنا کیا سامنے ضرور آتا ہے کوئی سوچ سکتا ہے کہ یہ وقت بھی آنا تھا کہ متحدہ نے کراچی میں بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا ہے لیکن سردست لوگوں کو حیرت نہیں ہوئی کہ اس کی سرگرمیاں جو ماضی کا حصہ رہی ہیں لوگوں کو بھولی نہیں ہیں ۔ صورت حال پورے ملک ہی میں دگرگوں ہے سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ایک ابتری اور بے یقینی کی صورت حال ہے ہر پاکستانی ضرور سوچتا ہوں کہ ملک کو نہج پر یا اسی انجام پر لانے میں آخر کس کا ہاتھ۔یہ ساری بے برکتی کس کے سبب سے پیدا ہوئی یہ جو سیاسی بحران ہے آپ اسے پی ٹی آئی کی حکمت عملی کہیں کہ انہوں نے ایک لمحے کے لئے بھی پی ڈی ایم کی حکومت کو کام نہیں کرنے دیا یا پھر آپ اسے ن لیگ اور اتحادیوں کی ضد کہیں کہ انہوں نے انتخابات کے مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا آپ یقین کیجیے کہ کسی کو بھی عوام کی فکر تو ایک طرف ان کی طرف ذرا سی توجہ بھی نہیں ۔اس کشا کش اور کھینچا تانی میں تاجر طبقہ عموماً اور سرمایہ کار خصوصاً جی کھول کر لوٹ مار کر رہا ہے کہ کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تنخواہ دار طبقہ تو جیتے جی مر گیا۔مصیبت یہ ہے کہ تینوں سٹیک ہولڈرز ایک ہی انداز میں مصروف کار ہیں کہ کسی کو بھا جائیں۔شہباز شریف کا بیان کہ ایک ہاتھ میں ایٹم بم ہے اور دوسرے میں کشکول ایک نہایت بلیغ اشارہ ہے فیصل نجمی نے کہا تھا: پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر گیا خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا کاش بھٹو والا جذبہ ہم میں پلٹ آئے کہ گھاس کھا لیں گے ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ اب ایک اور جذبہ اے کاش ہمارے اندر آ جائے کہ روکھی سوکھی کھا لیں گے ایٹمی اثاثہ جات کو ضرور بچائیں گے۔ سکیورٹی ازبس ضروری ہے کہ امن اور سکون سے بندہ روکھی سوکھی بھی کھا لے تو بہت ہے۔ صد شکر کہ ابھی سراج الحق جیسے لوگ موجود ہیں جو قوم کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر جگانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔علمائے کرام پر بھی بھاری ذمہ داری آئی ہے کہ آپس کے اختلافات بھلا کر ایک پلیٹ فارم پر آئیں۔ باکمال دانشور احمد جاوید کے اشعار ذھن میں آ گئے: اچھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے لنگر سے روٹی لیتے ہیں پانی سبیل سے اک شخص بادشاہ تو اک شخص ہے وزیر گویا نہیں ہیں دونوں ہماری قبیل سے اب تو خیر صورت حال ہی اس کے متضاد ہے کہ بادشاہ فقیر بنے ہوئے ہیں یہ فقیر فقر سے نہیں ہیں۔ یہ اجتماعی سطح پر اس شخص کے جیسے ہیں جو لنگرسے اپنی کھا آتا ہے اور دوسرے کی لے آتا ہے جس نے اسے اس کام پر لگایا ہے ویسے اب تو یہ منگتے وہ بھی کھا جاتے ہیں جو دوسروں کے لئے لاتے ہیں۔ اب شہر آشوب کون لکھے۔ کسی پر بھروسہ نہیں کسی کا اعتبار نہیں اور کسی سے امید نہیں کوئی نہیں جانتا کہ کون کس کا وفادار ہے تاہم کون کسی کا غلام ہے سب جانتے ہیں۔ شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا یہ سب کچھ سیاست ہی میں ہو سکتا ہے۔یوٹرن تو خیر حکمت عملی اور دانشمندی ہے اس لئے خاں صاحب کی بات تو میں نہیں کر سکتا کہ وہ گھومتے گھماتے موجودہ صورت حال تک پہنچ گئے ہیں۔ ان کی خوش قسمتی کہ مقابلہ پر کوئی بلوچ لیڈر نہیں میں کوئی پنجابیوں کے خلاف بات نہیں کر رہا مگر ہم پنجابی سوچتے تو ہیں کہ نواز شریف آخر اس قدر ڈرے کیوں ہوئے ہیں اور کس سے ڈرے ہوئے ہیں کہ اپنی حکومت میں بھی آنے سے اس قدر گریزاں۔انہوں نے پھر کہہ دیا کہ وہ ابھی نہیں آ رہے۔ لوگ عجیب الجھن میں ہیں جیسے کہ ان کی سیاسی لیڈران کے بارے میں بے رغبتی سی ہو گئی ہے ۔سچ مچ ایسے ہی لگتا ہے کہ سیاستدانوں اور عوام کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔مثلاً میں کراچی کے ایک عام آدمی کی بات سن رہا تھا کہنے لگا یہاں کوئی کسی کا نہیں ،یہاں ڈھونڈنے سے بھی کوئی کام کا بندہ نہیں ملتا، عام آدمی کے لئے روڈ بند ہے، یہاں آپ کو انسان نہیں چور اور ڈاکو کثرت سے مل جائیں گے۔ ڈاکو بھی ایسے کہ کچے کے الگ اور پکے کے الگ۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہو رہی ہے کہ سب کا اپنا کیا کرایا سامنے آ رہا ہے۔ صرف عمران خاں ہی نہیں کہ جس کی اقتدار میں آنے سے پہلے کی تقریریں چلتی رہی ہیں۔اب مصطفی کمال کے دعوے زور شور سے چل رہے ہیں۔مصطفی کمال نے خالد مقبول صدیقی کا تعارف ایسا کروا رکھا ہے کہ آپ سن نہیں سکتے۔یہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہی نہیں ایک ہو گئے۔حیرت تو اس بات پر ہے کہ ایک دوسرے تنے سنگین الزامات کے بعد بھی کسی کے ماتھے پر شرمندگی کے قطرے برآمد نہیں ہوتے۔ لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ عوام کی طرف کسی کی نظر التفات نہیں۔جماعت اسلامی کے پاس فخر کرنے کو بہت کچھ ہے اور ماضی میں کئی شاندار کردار بھی مگر کیا کریں: کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آگے ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں ایسے لگتا ہے کہ ہم کسی بند جگہ پر پھنس چکے ہیں یا یہ کہہ لیں کہ راستے بند ہوئے جاتے ہیں اور ہم کہیں محبوس ہوتے جا رہے ہیں۔