امیر کو امیر تر اور غریب، غریب تر ہو گیا! مادر وطن پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، آبادی میں چین پہلے اور بھارت دوسرے نمبر پر ہے، اس وقت دنیا کی آبادی 8 ارب 4 کروڑ سے زائد ہے جبکہ آئندہ پچاس سال میں دنیا کی آبادی 12 ارب تک پہنچ سکتی ہے۔ دنیا کی آبادی کا پچاس فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، دنیا میں ہر گھنٹے میں 9 ہزار سے زائد بچے پیدا ہوتے ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی میں سالانہ 8 کروڑ کا اضافہ ہو رہا ہے، اس سال سب سے زیادہ آبادی والے ممالک کی درجہ بندی میں ایک قابل ذکر تبدیلی آئی ہے، جس میں بھارت نے چین کو پیچھے چھوڑ کر سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر جگہ بنائی ہے۔ بھارت 1,42.58 کروڑ آبادی کیساتھ پہلے، چین 1,42.57 کروڑ آبادی کیساتھ دوسرے، امریکہ 33.19 کروڑ رکھتے ہوئے تیسرے، انڈونیشیا 27.38 کروڑ کے ساتھ چوتھے جبکہ پاکستان 23.14 کروڑ آبادی کا حامل پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث غربت، معاشی خدشات اور صحت عامہ کے چیلنجز اور مسائل سامنے آتے ہے، اس طرح ان چیلنجز کے بارے میں آگاہی پھیلانے اور ان سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ نے 1990ء میں آبادی کا عالمی دن منایا جو ہر سال 11 جولائی کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے، اس مرتبہ یہ بات سامنے آئی کہ وطن عزیز پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن چکا ہے مگر کیا ہماری اس ضمن میں تیاری تھی اور آئندہ کیلئے کوئی تیاری ہے؟ چین ون چائلڈ ون پالیسی کے نقصانات سے دوچار ہونے کے بعد اسے ترک کر چکا ہے، دنیا بھر میں آبادی پر قابو پانا کسی بھی ریاست کیلئے کامیاب تجربہ نہیں رہا اور نہ ہی وہ آبادی میں اضافے کو روک پائے ہیں، لہذا سوال ہے کہ ہمارے حکمران ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرنے کیلئے کس انداز میں معشیت کو چلا رہے ہیں؟ وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ انکی حکومت نے 14 ماہ میں چار سال کا گند صاف کیا ہے، مشکل فیصلوں سے معشیت کو شاہراہِ ترقی پر گامزن کیا ہے، شائد وزیراعظم کے ذہن میں گزشتہ ماہ جون میں مہنگائی کی شرح میں نو فیصد کمی کے ساتھ مہنگائی کی شرح 29.4 فیصد رہنے کی خوش فہمی ہو حالانکہ جون 2023 میں مہنگائی کی شرح 29.4 فیصد رہی جو مئی میں 38 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ جولائی سے جون تک مہنگائی کی اوسط شرح 29.18 فیصد رہی ہے، سالانہ بنیادوں پر جون 2023ء میں شہروں میں مہنگائی کی شرح 27.3 فیصد اور دیہی علاقوں میں 32.4 فیصد ریکارڈ کی گئی، گزشتہ ایک ماہ میں مرغی، آلو، دودھ، ڈیری مصنوعات اور چاول مہنگے جبکہ انڈے، سبزیاں اور آٹا سستا ہوا، سالانہ بنیادوں پر ایک سال میں سگریٹ 129.2 فیصد، چائے 113 فیصد اور آٹا 90 فیصد مہنگا ہوا، ایک سال میں چاول کی قیمت میں73 فیصد، آلو 65 فیصد، گندم 62 فیصد، درسی کتب 114 فیصد، اسٹیشنری 68.5 فیصد مہنگی ہوئی، ایک سال میں گیس اخراجات 62.8 فیصد اضافہ اور گھریلو سامان 40 فیصد مہنگا ہوا، ایک طرف وزیراعظم آئی ایم ایف سے آئندہ قرضہ نہ لینے کے دعائیہ پیغامات جاری کر کے قوم کو مبارک باد دیتے ہیں اور دوسری طرف چار سال کا گند صاف کرنے کا نعرہ بلند کرتے ہیں جبکہ بجلی کے نرخوں میں مزید چار روپے سے زائد فی یونٹ اضافے کی خبریں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ پی ڈی ایم حکمرانوں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ انھوں نے معشیت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے، تاہم الیکشن کا سال ہونے کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی ہوسکتی ہے جبکہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد بھی زر مبادلہ کے ذخائر کے معاملات سے ریلیف مل سکتا ہے مگر کیا الیکشن ہونگے؟ پی ڈی ایم حکومت نے ملکی معیشت اور عوام کا جو بھرکس نکال دیا ہے، دنیا میں آبادی کے اعتبار سے پانچویں بڑے ملک کے باسیوں کے ان مسائل اور بحرانوں سے کیسے اور کس نے نبردآزما ہونا ہے؟ رواں سال ورلڈ بینک کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ پاکستان غربت کی انتہا کی طرف بڑھتا جا رہا ہے اور مزید پستی کی طرف گامزن ہے، گزشتہ تین سال میں حقیقی آمدنی میں 10.9 فیصد کی شرح سے کمی آئی ہے جبکہ پاکستانی شہریوں کی دولت میں نصف سے زیادہ کمی آئی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ ہنگامہ آرائی، برسوں کی ناقص انتظامیہ اور ناکارہ حکمرانی ہے۔ طویل المدتی منصوبہ بندی کی کمی، مینوفیکچرنگ اور ایکسپورٹ کلچر کو فروغ دینے میں ناکامی کی وجہ سے مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ سیاسی انتشار ہمارے معاشرے کو کمزور کر رہا ہے، جبکہ بنیادی سہولیات ابھی تک ناپید ہیں، بے روزگاری اور مواقعوں کی کمی لوگوں کو دوسرے ممالک میں روزگار ڈھونڈنے پر مجبور کر رہیہے۔ مالی سال 2023ء کے جی ڈی پی میں روپے کے لحاظ سے 27.1 فیصد اضافے کے باوجود فی کس آمدنی میں نمایاں کمی ہے، اس کی بنیادی وجہ کرنسی کی قدر میں کمی ہے، کیا ذمہ دار موجودہ حکومت نہیں؟ کیا پی ڈی ایم سرکار نے خرافات کا قلع قمع کیا؟ زرعی پیداوار، صنعتی کارکردگی، اور اس کے نتیجے میں معاشی اصلاحات کے لیے پختہ عزم قائم کیا گیا؟ دنیا کی پانچویں بڑی آبادی ان سوالات کے جواب حاصل کرنے کی خواہاں ہے۔ ملک کی تمام جماعتوں کی حکومت میں مزید 39 لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں، عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق موجودہ سیاسی صورتحال کے تحت پاکستان کی معیشت کو تاحال سنگین چیلنجز کا سامنا ہے، غربت بڑھنے کی وجہ سیلاب کی تباہی، مہنگائی اور بیروزگاری ہے، لہٰذا سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زرعی پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے جبکہ این ڈی ایم اے کی تمام تر رپورٹس کے باوجود ایک مرتبہ پھر ہم اضافی پانی کے اخراج اور ممکنہ تباہی کے خدشات سے دوچار ہیں۔ افسوس ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومت کو مورد الزام ٹھہراتے وقت برباد کر دیتی اور جاتے ہوئے یا جانے کے بعد اپنی کارکردگی کا وہ نقارہ سناتی ہے، جس کا عملی وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ 75 برس برباد کردئیے گئے ۔ حکمران اشرافیہ اور انکی پروردہ اشرافیہ کے شوق اور پیٹ نہ بھر سکے، امیر کو امیر تر کر کے، غریب، غریب تر ہو گیا!