خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے سر تسلیم ہے خم کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور قرطاس کہاں رکھیں گے غالب نے بھی تو کہا تھا کہ’ لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں، ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘ بہرحال خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے ہم بھلا رنج و الم پاس کہاں رکھیں گے۔صرف صرف حق و صداقت ہی باقی رہنے والا اور رہے گا۔ کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ اور باریابی اور پذیرائی بھی اسی شے کو ہے جو خلوص اور ایثار پر اساس کرتی ہے ہائے ہائے کیا کمال بات اقبال نے کی: موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لئے قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے شعر کو سمجھا جاتا ہے سمجھانے میں اس کی خوبصورتی ختم ہو جاتی ہے ایک ایسا ہی شعر وائرل ہوا تو ہوتا چلا گیا یقیناً اس خیال کے سامنے کربلا کی لو تھی جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے کہا تھا کہ چراغ بجنے پر جس کو جانا ہے وہ چلا جائے۔وہ تو جاں نثار تھے کہ نقش قدم پہ اس کے کٹاتے گئے تھے سر۔اہل وفا نے صدقہ اتارا حسین علیہ السلام کا کون جنت چھوڑ جاتا بلکہ جنت کے وارثوں کو میرے زہن میں یہ واقعہ تو روشن تھا مگر میرے سامنے میرا تاریک عہد بھی تو تھا کہ مجھے کہنا پڑا: چراغ میں نے بجھا کر کہا کہ مہلت ہے وہ لوگ جاتے ہوئے لے گئے اٹھا کے چراغ یہ وہ لوگ ہیں جو روشنی کے دشمن ہیں کہ نہ چراغ ہو گا نہ جلے گا مگر اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے کچھ لوگ چراغ ہوتے ہیں ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن تھے چراغوں کو جلانے والے بات اصل میں وفاداری و دلداری کی وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے تبھی تو قتیل شفائی نے کہا تھا اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی ہم نے تو دل جلا کے سرعام رکھ دیا۔کوئی کسی کو بھی مفاد کے لئے چھوڑے تو دکھ ہوتا ہے مگر یہاں تو آناً فاناً ہی ہو جاتا ہے: یہ بے وفائی تھی صاحب کہ بے حیائی تھی خزاں کے پتے بھی لیتے ہیں وقت جھڑنے کو کوئی اس کے مطابق حق پر نظر آئے تو الگ بات انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ازبس ضروری ہے فیصلہ تو عوام کو کرنا ہے کہ اس حق انہیں آئین دیتا ہے صحیح صرف وہ نہیں ہے کہ جسے آپ درست سمجھتے ہیں پہلی اور آخری بات یہ ہے کہ آپ ان کو آنے دیں جن پر لوگ اعتماد کریں۔ عوام تو مہنگائی کی آگ میں جل رہے ہیں مجھے معاف کیجیے کہ میں ادب و شعر کی فضا سے ادھر آ گیا کہ مسائل کا تذکرہ کس نے کرنا ہے کیا ہم صرف یہی دیکھتے رہیں کہ روس سے تیل کا جہاز آ رہا ہے اور اس کے آنے سے پہلے ریلیف کے بڑے بڑے دعوے اور پھر یہ احسان عظیم کہ تیل کی قیمتیں برقرار رہیں گی یہ طفل تسلیاں آخر کب تک روز اک نئی ترغیب اب آذر بائی جان پاکستان کو سستی ایل این جی دے گا وہ کب عوام تک خوشی لائے گی کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک شہباز شریف نے تو چنیوٹ میں بھی دھات کا ذخیرہ نکالا تھا اور پرات بجا کر دکھائی تھی۔ چلئے یہ بات تو ہو گئی کہ شہباز شریف نے آذر بائی جان کے صدر سے روسی زبان میں بات کی اور سب حیران رہ گئے وہ ترکی زبان میں بھی مکالمہ کر لیتے ہیں دعویٰ ان کا سات زبانوں کا ہے مگر کاش لوگ ان کی زبان پر یقین کریں اگر آپ کے حافظے میں ہے کہ انہوں نے رات کو پٹرول میں کمی کر کے صبح بڑھا دی تھی ابھی جو تنخواہوں اور پنشن کا حال ہونے جا رہا ہے وہ مخفی نہیں ہے لوگ بے چارے تو ان کی آنی جانیاںدیکھتے ہیں اسلم کولسری یاد آ گئے: میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیے بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا لوگ حکمرانوں کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں سمندری طوفان کا شہرہ رہا طوفان کراچی سے ٹکراتا ٹکراتا رہ گیا کچھ بزلہ سنج تو لکھ رہے تھے کہ طوفان نے وہاں سے اجتناب کر کے سندھ حکومت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا اس سے پہلے انور مقصود بھی لکھ چکے ہیں کہ سندھ والے تو سیلاب کے انتظار میں رہتے ہیں کہ امداد آن پہنچے اور ان کا گزر گزارہ ہو کون نہیں جانتا کہ کھجور اور کمبل تک مارکیٹوں میں بکے۔ بہرحال جو بھی ہے طوفان کے شور شرابے میں پیپلز پارٹی اپنا میئر لے آئی وہی کہ: رند بخشے گئے قیامت کو شیخ کہتا رہا حساب حساب جماعت اسلامی بے چاری احتجاج ہی کرتی رہ گئی اب وہ عدالت جائیں گے ۔ سندھ بہرحال زرداری صاحب کے رحم و کرم پر ہے سمندر کی لہریں تو گزر گئیں مگر سیاست کے سمندر میں ابھی طوفان کو کسی طرف جانا ہے: ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں کیا خبر کس نے تیری سمت موڑیا ابھی تو حالات ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا ابھی تو وہ شاخیں ہل رہی ہیں جن پر سے پرندے اڑے ہیں۔ دیکھئے کب مواقف حالات ہوتے ہیں ایک مرتبہ کسی نے ایک لڑکی کو ربڑ کے سانپ سے ڈرایا لڑکی نے کہا جی مجھے بے وقوف نہ بنائیںمجھے معلوم ہے کہ یہ سانپ ربڑ کا ہے۔پھر کچھ رکھ کر بولی پھر بھی کیا پتہ؟ تو یہاں بھی کسی کا کچھ اعتبار نہیں اگر چھپنے والے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دیکھنے والے انہیں چھپنے نہیں دیتے جو آگ لینے آئے تھے وہ بظاہر گھر والے بنے بیٹھے ہیں کسی کو لاکھ برا لگے حقیقت یہی ہے: انسان اپنے آپ کو پہچانتا نہیں اک سانپ بولتا ہے سپیرے کی بین میں