نقوش کے لاہور نمبر میں پنڈت لیکھ رام آریہ مسافر کا دو چھوٹے چھوٹے پیرا گراف میں ذکر ہے۔بتایا گیا ہے کہ آریہ سماج تحریک سے منسلک پنڈت لیکھ رام کئی کتابوں کا مصنف ہے۔ان میں تکذیب براہین احمدیہ(رد قادیانیت )‘ کرسچن مت درپن‘ حجت اسلام ‘ صداقت رگ وید، آئینہ انجیل‘ تعلیم نسواں‘ مورتی پرکاش‘ نمستے کی تحقیقات وغیرہ شامل ہیں ۔وہ ہندو مت کی تبلیغ کرتا ، اس نے اسلام اور دیگر مذاہب کے خلاف انتہائی تعصب کا ثبوت دیا۔ قادیانیوں کے خلاف بھی کئی مضمون شائع کئے۔ 6مارچ 1897ء کو پنڈت لیکھ رام اپنے مکان پر موجود تھا کہ کسی نے قتل کر دیا، بتایا جاتا ہے کہ قاتل اس کا شاگرد تھا اور وہ از سر نو ہندو ہونا چاہتا تھا۔اس کے قتل کا الزام مرزا غلام احمد قادیانی پر لگا۔جب قاتل کا پتہ نہ لگا تو آریہ سماج والوں نے قاتل کو گرفتار کرانے والے کے لئے دس ہزار روپیہ انعام رکھا۔ محمد دین فوق کے بقول ’’اپنے لیڈر کے قتل سے مشتعل ہو کر لاہور کے ہندو حلوائیوں نے بطور انتقام مسلمانوں کے بچوں کو مٹھائی میں زہر دے کر مار دیا۔اس پر لاہور کے مسلمانوں نے ہندوئوں سے مٹھائی خریدنا بند کر دی۔مسلمان حلوائیوں کی دکانیں کھلنے لگیں۔اس واقعہ کے متعلق کسی دوسرے مورخ نے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ جو باتیں لاہور نمبر میں نہیں بتائی گئیں وہ یہ ہیں کہ پنڈت لیکھ رام 1858ء میں پیدا ہوا۔اس کی جائے پیدائش ضلع جہلم کا گائوں سید پور تھا۔اس کے باپ کا نام تارا سنگھ اور ماں کا نام بھاگ بھری تھا۔ یہ وہ تارا سنگھ نہیں جسے تاریخ ماسٹر تارا سنگھ کے نام سے جانتی ہے ۔چند سال تک لیکھ رام پنجاب پولیس میں ملازم رہا۔منشی کنہیا لال کے نظریات سے متاثر ہو کر وہ آریہ سماج تحریک کا حصہ بن گیا۔وہ آریہ سماج تحریک کے بانی سوامی دیانند کا پر جوش پیروکار تھا۔اس نے پولیس ڈیپارٹمنٹ سے استعفیٰ دیا اور زندگی آریہ سماج تحریک کے نام کر دی۔وہ پنجاب آریہ پراتی نندی سبھا کا مبلغ بنا اور دور و نزدیک رابطے استوار کئے۔اس نے پشاور میں آریہ سماج کی شاخ قائم کی۔اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو بچپن میں انتقال کر گیا۔پنڈت لیکھ رام گائے کو ذبح کرنے کے خلاف تھا۔وہ سرکاری دفاتر اور سکولوں میں ہندی کی ترویج کا زبردست حامی تھا۔وہ عربی اور فارسی کا فاضل تھا اس لئے مناظروں اور مذہبی مباحث میں سرگرم رہتا۔پنڈت لیکھ رام شدھی تحریک کا حامی اورمسلمانوں کو پھر سے ہندو بنانے کی حمایت کرتا ۔ سوامی دیانند کی 1883ء میں موت کے بعد ان کے تین شاگردوں نے آریہ سماج کی رہنمائی کی۔ان میں گرودت، لیکھ رام اور لالہ ہنس راج شامل تھے۔مہاتما ہنس راج پر ہم پہلے تفصیلی بات کر چکے ہیں ۔گرودت نے پنڈت دیانند کی تعلیمات کو ایسی تشریح کے ساتھ پیش کیا کہ آریہ سماج ہندوئوں کا ایک عسکریت پسند گروہ بن گئے۔ 1893ء میں آریہ سماج دو دھڑوں میں بٹ گئی۔تعلیم یافتہ اور باشعور سمجھے جانے والے لوگ مہاتما ہنس راج اور لالہ لاجپت رائے کی قیادت میں جمع ہوئے اور لاہور میں ڈی اے وی سکول و کالج قائم کیا۔انتہا پسندوں نے پنڈت لیکھ رام کو اپنا لیڈر بنا لیا۔لیکھ رام جنگ کے اسلامی تصور کا مذاق اڑاتا۔اس شخص کی وجہ سے صدیوں سے اکٹھا رہنے والے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے۔ آریہ سماج والے لیکھ رام کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ایک بار وہ باہر کام کر کے گھر آیا۔بیوی نے کہا اکلوتا بیٹا سخت بیمار ہے دوا نہ کی تو مر سکتا ہے۔لیکھ رام نے کہا سخت بھوک لگی ہے۔ایک روٹی کھا لوں تو حکیم کے پاس جاتا ہوں۔ابھی روٹی کا لقمہ لیا تھا کہ ڈاکیے نے خط دیا کہ پٹیالہ کے پاس واقع پایال نامی گائوں میں کچھ ہندو مسلمان ہو رہے ہیں۔ پنڈت لیکھ رام روٹی چھوڑ کر بھاگا۔ٹرین پر بیٹھا۔یہ گاڑی پایال نہیں رکتی تھی۔اس نے چلتی گاڑی سے چھلانگ لگائی اور زخمی حالت میں گائوں پہنچا۔وہاں جا کر بلند آواز سے مسلم مبلغین سے کہا کہ مجھ سے مناظرہ کرو۔میں ہار گیا تو خود بھی ہندومت چھوڑ دوں گا۔آریہ سماج والوں کے بقول یوں اس نے ہندو خاندانوں کو مذہب بدلنے سے روک لیا۔اسی وقت اسے ٹیلی گرام ملا کہ اس کا بیٹا انتقال کر گیا ہے۔ پنڈت لیکھ رام کی موت کو قادیانی حلقے مرزا غلام احمد کی پیشگوئی بتا تے ہیں۔دوسری طرف آریہ سماج والے ایک ایسے مناظرے کی تفصیلات دیتے ہیں جس میں پنڈت لیکھ رام نے مرزا غلام احمد کو جھوٹا ثابت کیا۔پنڈت لیکھ رام کہا کرتا کہ ماورائی چیز سے مراد ایسی چیز ہے جو قانون قدرت توڑ کر ظاہر ہوتی ہے۔پنڈت لیکھ رام کے حالات زندگی مختصر طور پر کچھ ’’سربکف مسافر بہادر لیکھ رام‘‘ میں مذکور ہیں۔60صفحات پر مشتمل یہ کتاب مہاشے آشفتہ امرتسری جرنلسٹ نے لکھی اور امرت الیکٹرک پریس لاہور سے چھپی‘ اس کے پرنٹر درگاداس تھے۔میری نظر سے جو نسخہ گزرا وہ تیسری اشاعت کا تھا ۔ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہونے والی کتاب کی فی جلد قیمت 3آنے رکھی گئی۔ پنڈت لیکھ رام کا گھر اندرون لاہور کی وچھووالی سٹریٹ میں تھا۔انگریز حکومت نے اس کے قاتل کی تلاش میں ناکامی کے بعد کیس بند کر دیا۔ کینتھ ڈبلیو جونز اپنی کتاب ’’آریادھرما‘‘ ہندو کونشئس نیس ان 19سنچری پنجاب‘‘ میں اس ماحول کا نقشہ کھینچتے ہیں جب پنجاب میں انگریز قابض ہو چکے تھے۔انتظامی اور حکومتی تبدیلیوں نے ایک طرف برطانوی ثقافت کو رواج دیا اور دوسری طرف پنجاب کی روائتی ثقافت کے سامنے چیلنج کھڑے ہوئے۔مختلف گروہوں نے اپنے ثقافتی و سیاسی کردار کوازسرنو طے کرنے پر توجہ دی۔پنجاب کا اصل ہندو بدھ کلچر اسلام سے روشناس ہوا۔انیسویں صدی کے وسط میں مسلمان پنجابیوں کی تعداد باقی آبادی کے نصف تھی۔اس ماحول نے ہندوئوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ فارسی پڑھیں، اسلام کا مطالعہ کریں ،اسلامی ثقافت سے ہم آہنگ ہوں۔سیاسی کردار نہ ہونے کی وجہ سے راجپوت اور برہمن ہندوئوں کے سماجی لیڈر بن گئے۔پنجاب میں سکھوں کے عروج نے ہندوئوں کا یہ کردار بھی کم کر دیا۔آریہ سماج تحریک اس کم ہوتی حیثیت کو بحال کرنے کی کوشش تھی۔