بھارت پاکستان کاایسا ہمسایہ ہے جس کے ساتھ بار بار کی کوششوں کے باوجود بہتر تعلقات قائم نہیں ہو سکے۔ اس کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے گئے۔ سوچی سمجھی سازش کے تحت پتھر باز دہشت گردوں کے نام پر مسلمان کشمیریوں کی نسل کشی کی جاری ہے۔ ماضی میں تصاویر چیخ چیخ کر بولتی رہیں کہ معصوم بچوں کو پیلٹ گن کے ذریعے سے اندھا کیا گیا۔ حریت رہنماؤں کو دہشت گرد تصور کرکے بے بنیاد حقائق پر مبنی دستاویزات جاری کی گئیں کہ کس حریت رہنما کے اکاؤنٹ میں کس سال کتنی بیرونی امداد آئی۔ 2019ء میں سری نگر میں جھوٹی پاسنگ آؤٹ پریڈ کروائی گئی۔ دنیا کو یہ باور کروانے کے لیے کہ 152 کشمیری نوجوانوں نے بھارتی آرمی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ بھارتی میڈیا کے بقول کشمیری خواتین اس اقدام سے بے حد مسرور تھیں کہ ان کو 15 اگست کے حوالے سے پرچم کشائی ٹیبلو میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا۔ بلاشبہ بھارتی میڈیا دنیا سے سچائی کو اتنا دور رکھتا ہے جتنا مشرق و مغرب ہیں۔ بھارت نہایت عیاری سے مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو لا کر آبادی کا توازن بگاڑنے میں کافی حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔ اس ناپاک سعی کا آغاز 2019ء سے ہی کر دیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں آباد ہونے والے افراد حقیقت میں بھارتی ریٹائرڈ فوجی افسران ہیں اور وہ وہاں اپنے اہل و عیال کے ساتھ مقیم ہیں۔ بھارتی چینلز پر اب تو مقبوضہ کشمیر سے متعلقہ مصنوعات کی تشہیر بھی شروع ہو چکی ہے۔ حتی کہ عالمی سطح پر یہ دکھایا جا رہا ہے کہ انڈین Garg Parul نامی سیلون سے کشمیری خواتین دلہنیں بن رہی ہیں۔ میرے نزدیک یہ بھارتی آرمی افسران کی عورتیں ہیں جنہیں کشمیریوں سے موسوم کرکے "سب اچھا ہے" کا لیبل لگا کر عمداً سچ چھپایا جا رہا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ہماری کشمیری خواتین پردہ کرتی ہیں۔ نیم برہنہ عروسی لباس بھارت کی ثقافت ہے نا کہ کشمیر کی۔ گمراہ کن نشریات بھارتی میڈیا کا خاصہ ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں اس وقت دنیا کا طویل ترین مارشل لاء ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ باقی ماندہ کشمیریوں کی درد بھری آواز سلامتی کے ضامن، دنیا کے منصف ، انٹرنیشنل سرپنج یعنی اقوام متحدہ کے کانوں تک نہیں پہنچ پا رہی۔ حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل نمبر 2 کے تحت سلامتی کونسل کو مکمل اختیار ہے کہ ایسی رکن ریاست کے خلاف اقدامات کروا سکتی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مسلسل ارتکاب کر رہی ہو۔مزید برآں معاشی پابندیاں عائد کر سکتی ہے۔ اگر ضروری سمجھے تو اقوام متحدہ کے فوجی دستے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے بھیج سکتی ہے۔ ستم ظریفی تو دیکھیے کہ انٹرنیشنل کمیونٹی "کشمیر پکچر" سے اتنی ہی شناسا ہے جتنا کہ بھارتی میڈیا اسے دکھاتا ہے۔ عالمی مبصرین، صحافیوں ،ناقدین کو مقبوضہ وادی میں داخلے کی اجازت نہیں۔ بھارتی انٹیلیجنس ایجنسیوں کی کوشش ہی یہی رہتی ہے کہ کسی طرح عالمی مبصرین کو مقبوضہ کشمیر جانے سے روکا جائے تاکہ مودی کی فرعونیت پس پردہ رہے۔ بین الااقوامی تجزیہ نگار دل ہی دل میں سوچتے تو ہونگے کہ حریت رہنما میرواعظ عمر فاروق، یسین ملک و دیگر علمبرداران آزادی کدھر گئے۔ ؟ پاکستان اس وقت سیاسی لحاظ سے عدم استحکام کا شکارہے۔ اس وجہ سے دشمن نے چپکے سے اپنا "ہوم ورک" مکمل کر لیا ہے۔ 20 فروری کو معروف بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے سیکیورٹی اسٹیبلیشمنٹ کے عہدے داران کے حوالے سے لکھا ہے کہ کشمیر کے اندرونی علاقوں سے فوج بلانے پر غور ہو رہا ہے۔ اب ہمارے لیے یہ مقام شکر نہیں بلکہ مقام تاسف ہے۔ اس خبر کے مطابق پاکستان کو مستقبل قریب میں چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ مودی اور اس کے حواری الیکشن سے قبل بھارتی ووٹرز کو لبھانے کے لیے تقریباً 15 اگست یا کسی دن کو خاص نام دے کر مقبوضہ وادی میں فوج کے انخلاء پر جشن منائیں گے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ کشمیر میں اب شانتی ہے۔25 ہزار سے زائد بھارتی جن کو کشمیری ڈومیسائل خیرات کی طرح بانٹے گئے ہیں ان کو کشمیری کلچر طرز کی پوشاک، ٹوپیاں پہنائی جائیں گی۔مقبوضہ وادی میں بھارتی ترنگا(جھنڈا) لہرایا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں یہی تعینات بھارتی فوج LOC یعنی لائن آف کنٹرول پر آ جائے گی۔ گزشتہ چند سال سے بھارت کا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ وہ الیکشن سے قبل اپنی جنتا کو خوش کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ چونچ لڑاتا ہے۔ خواہ وہ جھوٹی ائیر سٹرائیک ہو یا پلوامہ جیسا جعلی ڈرامہ۔ ایک اور مصدقہ اطلاع ہے کہ بھارتی سرکار نے برملا اعلان کیا ہے کہ "22 اکتوبر 2023ء کو بھارت گلگت بلتستان کو POK کا حصہ بنانے جا رہا ہے"۔ اب اس گیڈر بھبھکی کو ہم کیا رخ دیں تاہم یہ بخوبی اخذ کر سکتے ہیں کہ مودی کا اگلا منصوبہ کیا ہو سکتا ہے۔ ؟؟؟بھارتی انٹیلیجنس ایجنسیاں تیزی سے اس پر کام کر رہی ہیں کہ پاکستان میں اقلیتی برادری کو کتنا ٹارگٹ بنایا جاتا ہے۔ ڈر تو اس بات کا ہے کہ پاکستان کے سیاسی حالات مستحکم نہ ہوئے تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن اقلیتی برادری میں فساد برپا کروائے گا۔ اگر آنے والے دنوں میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد سے نزاعات کا لامتناہی سلسلہ پیش آئے تو اس میں بھارت ملوث ہوگا۔ اقوام متحدہ سے اپیل ہے کہ مقبوضہ وادی کی انٹرنیٹ سروسز بحال کروائے مزید برآں انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے حریت رہنماؤں کے بیانات قلمبند کروائے۔اگر نہیں کر سکتا تو سیٹیلائٹ تصاویر وائرل کرے جس سے واضح ہو جائے کہ بھارتی فوج کی تعیناتی کہاں کہاں ہے۔ اگر آبادی والے علاقوں میں بھارتی فوج ڈیرہ جمائے بیٹھی ہے اور بھارتی جھنڈے جگہ جگہ لہرائے جا رہے ہیں تو پھر خدانخواستہ ہم طویل ترین کرفیو کے نتیجے میں بھاری نقصان کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے دنیا کی توجہ بھارت کے اس مکر و فریب کی جانب مرکوز نہ کروائی تو ریفرنڈم بھی ایسا جانبدار ہوگا کہ ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں گے۔