میاں محمد نواز شریف، جنہیں قانونی تقاضوں کی رو سے جیل میں ہونا چاہیے تھا، ن لیگ کی ملک بھر میں جڑیں پیوست کرنے کے لیے سیاسی اتحاد بنا نے میں مصروف ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف سیاسی پارٹیوں سے اتحاد کے لیے مذاکرات ہورہے ہیں تو بلوچستان میں کوئی ایسی پارٹی نہیں بچی جس سے انہوں نے قابلِ انتخاب قیادت کو نہ توڑا ہو۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں سابق حکمران پارٹی کی مرکزی قیادت جیل میں ہے اور اسکی باقی ماندہ قیادت ایک تو تادیبی کاروائیوں کے نشانے پر ہے دوسرے اسے پنجاب میں جلسہ کرنے کی اجازت تک نہیں مل پارہی۔ واضح نظر آرہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات ملک کو استحکام کی بجائے انتشار اور بد نظمی کے راستے پر لے جائیں گے۔ دو بڑی سیاسی پارٹیاںتحریک انصاف اور پیپلز پارٹی، انتخابات سے قبل ہی زخم خوردہ نظر آرہی ہیں۔ نسلی اور فرقہ وارانہ دراڑوں کی موجودگی اور سرعت کے ساتھ بدلتے تذویراتی (سٹریٹجک) ماحول میں متوقع سیاسی دراڑ کے ملکی سلامتی پر اثرات کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔ ایسے میں جب ملک فروری میں ہونے والے مجوزہ عام انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے اور سیاسی جماعتیں انتخابی کامیابی کے لیے اتحاد تشکیل دینے میں جٹی ہیں، احتساب کی ضرورت و اہمیت توں توں واضح ہوتی جارہی ہے۔ یہ سوال شدت کے ساتھ اٹھ رہا ہے کہ انتخابی نتائج سیاسی پارٹیوں کے گٹھ جوڑ، غیر شفاف انتخابی عمل اور غیر سنجیدہ اور ناقابل عمل منشوروں کی بنیاد پر ترتیب پائیں گے یا پھر ان سیاسی پارٹیوں کی ماضی میں کارکردگی، جمہوری رویوں کے ساتھ وابستگی اور قابل عمل وعدوں پر؟ کیا کوئی ایسا طریقہ کار سامنے آ پائے گا کہ ووٹرسیاسی پارٹیوں کا انکے انتخابی منشور، ذمہ دارانہ رویے اور طرزِ حکمرانی کے حوالے مواخذہ کرسکیں؟ یہ سوال پاکستان، جو معاشی جمود اور سیاسی ناچاقی کا شکار ہے ، کے بعد از انتخابات مستقل کے لیے نہایت اہم ہے۔ نوے کی دہائی میں جب جمہوری حکومتوں کی نگرانی میں، بیرونی قرضوں کی مدد سے، معاشی اصلاحات اور، نتیجتاً، آزاد معیشت کو فروغ دینے کا کام شروع ہوا ، جمہوریت اور معیشت دونوں زوال کا شکار ہوئے ہیں۔ اس وقت سیاسی چپقلش عروج پر ہے تو معیشت بھی جمود کا شکار ہے۔ وجہ ایسی نہیں جو سمجھ میں نہ آتی ہو۔ اگرسرکاری سرپرستی میں چلنے والی انڈسٹری کی نجکاری شفاف طریقے سے ہوتی اور اشرافیہ اسے مالِ غنیمت سمجھ کر آپس میں نہ بانٹ لیتی تومعیشت کا پہیہ بھی چلتا اور جمہوریت بھی اپنی ڈگر پر رہتی لیکن ہوا یہ کہ ایک طرف اجارہ داریاں پروان چڑھیں جنہوں نے صارفین کا خون نچوڑا اور دوسری طرف نئے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی ۔سویلین حکومتوں نے نجی شعبے کو راہ راست پر رکھنے کے لیے قائم احتسابی اداروں کو کام نہ کرنے دیا، دوسرے، عوام کو ضروری خدمات کی فراہمی کے لیے اہم مقامی حکومتوں کو اپاہج کردیا۔ اب جبکہ شرح نمو 1.8 فیصد پر اٹک گئی ہے، جو آبادی میں سالانہ اضافے کا نصف ہے، تو چالیس فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے چلی گئی ہے۔ اس کے بالکل برعکس، محض 330 خاندان، جو ملک کی 90 فیصد دولت پر قابض ہیں مجموعی آمدنی کا 8 فیصد ڈکار جاتے ہیں لیکن مالیاتی خسارے کا بوجھ، اپنے پالیسی سازی پر تسلط کی وجہ سے، متوسط اور کم آمدنی والے طبقے پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ واضح عدم توازن معاشی تنظیم نو کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، انتخابات کے بعد کے پاکستان کی سمت کی تشکیل میں سیاسی احتساب کے اہم کردار کو بھی واضح کرتا ہے۔ سیاسی احتساب جمہوری طرز حکمرانی کا سنگ بنیاد ہے جواس امر کا متقاضی ہے کہ سیاسی پارٹیاں جمہوری اصولوں پر کاربند ہوں۔ انکی فیصلہ سازی جمہوری عمل سے تشکیل پاتی ہو، پالیسی سازی کے لیے منظم طریقہ کار موجود ہو اور انکی طرف سے پیش کیے گئے منشور عملی منصوبوں سے مزین ہوں۔ اقتدار میں موجود افراد اور ادارے لازمی طور پر عوامی مفاد میں کام کریں اور اپنے طرز عمل کے لیے جوابدہ ہوں۔ یہ احتساب جمہوری عمل کے ذریعے انتخابی جوابدہی، عدالتی نظام کے ذریعے قانونی جوابدہی اور احتسابی نظام کے ذریعے انتظامی جوابدہی کا تقاضہ کرتا ہے تاکہ طرز حکمرانی بامقصد بھی ہو اور موثر بھی۔ پاکستان کے مخصوص سماجی اور معاشرتی تناظر میں احتساب کی بحث کا مرکز دولت کے ارتکاز کی تلخ حقیقت ہے جس میں امیر مراعات کا مزہ لیتے ہیں جبکہ کم مراعات یافتہ لوگ بھوک اور بیماری کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔ یہ دولت، آمدنی اور اختیارات کی غیر منصفانہ تقسیم ان پالیسیوں میں جھلکتی ہے جو اکثریت کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے ترقی کے فوائد امیر طبقے کے لیے مختص کردیتی ہیں۔ احتساب، اپنے جوہر میں، ان جمہوری اصولوں کے تحفظ کے طور پر کام کرتا ہے جو ملک کو مستحکم اور خوشحال مستقبل کی طرف لے جانے کے لیے ضروری ہیں۔ سیاسی احتساب بعد از پاکستان کے استحکام اور سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے ایک بنیادی شرط ہے۔ یہ انتخابی مہموں کے دوران کیے گئے ادھورے وعدوں کے تاریخی رجحان کے انسداد کے سدباب ، روایتی سیاست سے انحراف، اور زیادہ شفاف، ذمہ دار، اور جوابدہ طرز حکمرانی کا تقاضہ کرتی ہے۔ مطلب، انتخابی منشور میں سماجی و اقتصادی استحکام کا وعدہ صرف ووٹ جیتنے کے لیے نہیں بلکہ شفاف حکمرانی کے عزم ، جامع ترقی اور اختیارات و وسائل کی نچلی سطح پر منتقلی پر مرتکز ہوں۔ ایک زہریلا سیاسی ماحول، جو اشرافیہ کی اقتدار کی کشمکش سے پروان چڑھا ہے،اس میں سیاسی گفتگو کو تہذیب کے دائرے میں لانے کے لیے مضبوط احتسابی اقدامات نہایت ہی لازم ہیں۔ پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ملک جس راستے کا انتخاب کرے گا اس کی تشکیل سیاسی قیادت کے احتساب کے ساتھ عزم اور مقامی حکومتوں کی خود مختاری سے ہوگی۔ احتساب کا مطالبہ صرف تبدیلی کا مطالبہ نہیں ہے۔ یہ سیاست کاری اورطرز ِ حکمرانی میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ ہے ۔ ایک ایسے مستقبل کا مطالبہ جہاں استحکام اور ترقی صرف خواہشات نہیں بلکہ ٹھوس حقیقتیں ہوں۔