کچھ کم نہیں ہے وصل سے یہ ہجر یار بھی آنکھوں نے آج دھو دیا دل کا غبار بھی اپنے نقوش پا کے سوا کچھ نہیں ملا اپنے سوا کوئی نہیں صحرا کے پار بھی زندگی رواں دواں ہے مگر اپنی ڈگر پر۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں۔ تکلیف دہ ہے اور بھی کچھ عارضی خوشی۔ توڑا ہے میں نے بارہا غم کا حصار بھی۔ ایک چیز طے ہے کہ کچھ بھی طے کرلیں وہ حتمی نہیں۔ سنا ہے اب خان صاحب مذاکرات کی طرف آئے ہیں۔ بات پھر وہی کہ ہمیں زمانے نے سب کچھ سکھا دیا ورنہ۔ ہمارے پاس تو ایسا کوئی کمال نہ تھا۔ سراج الحق ایک مرتبہ پر لائم لائٹ میں آئے ہیں کہ انہوں نے شہبازشریف اور عمران خان کو مذاکرات کے رضا مند کرلیا ہے۔ ہائے ہائے: جانا پڑا رقیب کے گھر پر ہزار بار اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں اس شعر کو زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہ لیں۔ بس ویسے ہی میں نے لکھ دیا۔ بہرحال اچھا ہوا ہے کہ سراج لاحق نے اپنے موقف کو ایک طرف رکھتے ہوئے وقت کی نزاکت کو پہچانا کہ کہیں بساط ہی نہ لپٹ جائے۔ ایک بساط ان دیکھی بھی تو ہے کہ جہاں دونوں بادشہ پٹ جاتے ہیں۔ بہت خلائی مخلوق کے ڈسے ہوئے بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا۔ ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو۔ ویسے کمال کی بات ہے کہ ایک طرف ن لیگ کو مہنگائی کے باعث ہارنے کا خوف ہے اور دوسری طرف کسی کو عمران خان کے جیتنے کا خوف ہے۔ سراج الحق نے درست کہا کہ اپنی اپنی انا اور ضد کو قربان کرنا پڑے گا وگرنہ۔ بہرحال یہ وگرنہ بہت خوف ناک ہے۔ ایسے شعر ذہن میں آ گیا: اپنی اپنی انا کو بھلایا جا سکتا تھا شاید جلتا شہر بچایا جا سکتا تھا ہم تو یوں بھی سوچتے ہیں کہ دھوپ میں جلنے والو آئو بیٹھ کے سوچیں۔ اس رستے میں پیڑ لگایا جا سکتا تھا۔ لیکن ذرا ٹھہریے یہ مسئلہ اتنا بھی سیدھا اور آسان نہیں۔ ہزاروں لغزشیں حائل ہیں اب لب پر جام آنے تک۔ یہ درست کہ ایک ہی دن انتخاب پر دونوں جانب سے تعاون کی یقین دہانی کے بعد کمیٹی بنانے کی تجویز ہے مگر مولانا فضل الرحمن نے عین اس وقت بیان داغ دیا ہے کہ عمران خان سے مذاکات ملکی مفاد میں نہیں۔ ان کا لہجہ کچھ زیادہ ہی سخت تھا۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اس مقام تک آنے تک استعمال کیا گیا۔ ایک حقیقت تو سامنے ہے کہ ن لیگ تو ڈرائنگ روم پارٹی ہے اور انہیں پیپلزپارٹی کے ساتھ پر اتنا اعتماد بھی نہیں کہ زرداری صاحب ایک شاطر سیاستدان ہیں۔ یعنی پیپلزپارٹی کی سٹریٹ پاور بھی وہ نہیں رہ گئی۔ کوئی مانے یا نہ مانے یہ ہے پاور پولیٹکس۔حالیہ عدالتوں کے فیصلے بھی آپ کے سامنے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مولانا فضل کو بھی تو قائل کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف نوازشریف فیکٹر ہے کہ ان کے سامنے مریم بھی ہے اور مولانا فضل الرحمن بھی۔ ایک شعر میں ضرور لکھوں گا: مجھے یہ دھیان رکھنا ہے کہ رستے میں رکاوٹیں ہیں انہی رستوں پہ رہ کر ہی سحر کو شام کرنا ہے کون سوچے گا کہ اب وہ مارے گا حفاظت کے بہانے ہم کو۔ چلیے جمہوری اقدار تو ختم ہو چکی ہیں جیسے تیسے جمہوریت تو باقی رہنی چاہیے۔ وگرنہ تو پھر شوریٰ آسکتی ہے۔ابھی ہمارے ایک دانشور تبصرہ فرما رہے تھے کہ یہ غلط ہے کہ ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں بلکہ ایک ہی دست ہے جو یہ کام دکھا رہا ہے۔ گویا وہ دست جو پشت پناہی کرتا ہے مگر تکلیف دہ بلکہ شرمناک بات یہ کہ ہر کوئی اسی دست مبارک کو اپنی پشت پر چاہتا ہے۔ : کسی کردار کو چلنے نہیں دیتا آگے ایک کردار کہانی میں جو شامل بھی نہیں مزے کی بات یہ کہ جس کے ساتھ یہ دست ہوتا ہے وہ اتنا مغرور ہو جاتا ہے کسی سے دست مبارک نہیں ملاتا۔ اس دست شفقت کو جھٹکنے کی خواہش کسی کی نہیں۔ عوام کی نمائندگی کرنے والوں کو کس قدر یقین ہے کہ عوام طاقت کا سرچشمہ نہیں ہیں۔ اسی لیے وہ صرف ووٹ لینے کے لیے ان سے رجوع کرتے ہیں اور پھر انہیں پوچھتے تک نہیں۔ اگر کسی لیڈر کے پیچھے عوام نکلی بھی ہے تو عوام کے ساتھ بے وفائی ہو گئی۔ صرف سیاستدانوں ہی کو نہیں جوڈیشری کے کرتا دھرتا کو بھی سوچنا ہوگا ان کی ساکھ بھی دائو پر لگی ہوئی ہے۔ آپ تو سمجھدار لوگ ہیں اور اس بات کے قائل ہیں کہ آپ اب نظریہ ضرورت کو دفن کر چکے ہیں ۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ آپس میں تو متفق ہوں۔ویسے بھی اتفاق میں برکت ہے۔ کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں رہے گا۔ جب اندر کا ماحول درست ہو جائے گا تو دوسرا آپ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ بے چارے شہبازشریف تو آئی ایم ایف کو خوش کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی ساری شرائط پوری کردیں اور اب ان کے پاس کوئی بہانہ نہیں۔ وہ سچ کہتے ہیں کہ شہبازشریف تو عید پر بھی آئی ایم ایف کو خوش کرنا نہیں بھولے اور پٹرول دس روپے فی لیٹر بڑھا دیا ہے۔ لگتا ایسے ہی ہے کہ عوام موجودہ حکومت سے اور حکومت عوام سے مایوس ہو چکے ہیں۔ تبھی تو الیکشن سے بھاگ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کے دوست ممالک کی امداد پر بھی بہت خوش ہے ۔ عید پر صرف حکومت ہی نے پٹرول گرانی کا تحفہ نہیں دیا آج کل عیدی پروگرام پر ہیں۔ ہر طرف لوٹ مار کی خبریں ہیں بلکہ کچے کے ڈاکو بھی پکے پر آ گئے ہیں کہ کچے پر تو ایکشن ہورہا ہے۔ عوام بے چارے کیا کریں۔ مہنگائی سے لڑیں یا ڈاکوئوں سے اپنی حفاظت کریں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ بہت ہی غیر یقینی صورت حال ہے۔ آخری بات ایک خبر کہ ترکی والے ایک دریا زمینوں کے لیے بنا رہے ہیں۔ دل میں آیا کہ ہم تو اپنی زرعی زمینوں پر کالونیاں بنا رہے ہیں۔ یعنی ہم تو تعمیری کام کر رہے ہیں۔ یوسف خالد کا ایک شعر: لوگ کیا کیا خوبصورت تھے جنہیں لے گئی اندھی انا پاتال میں