شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز نے پاکستان میں در اندازی کے مرتکب افغان دہشت گردوں کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔ افغان پاکستان سرحد پر دراندازی کی کوشش کے دوران سات دہشت گرد مارے گئے۔انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کے مطابق سات رکنی افغان گروپ کی نقل و حرکت کا علم سیکورٹی فورسز کو غلام خان کے علاقے سپنکئی میں ہوا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے دراندازوں کو گھیر لیا ، مؤثر طریقے سے محاصرے میں لینے اور شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد، ساتوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں سے بڑی مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد برآمد کیا گیا ہے۔امریکی انخلا کے بعد پاکستان مسلسل افغان طالبان کی حکومت سے اپنی سرحد کی جانب موثر بارڈر مینجمنٹ کو یقینی بنانے کے لیے زور دے رہا ہے۔ افغان حکام سے ذمہ دارانہ طرز عمل اور اس امر کی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے اورپاکستان کے خلاف کارروائیوں کے لیے دہشت گردوں کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستان نے بیس سال تک دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے ۔بلاشبہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور ملک سے دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں عسکری قیادت کو بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں پناہ گاہیں رکھنے والے دہشت گرد پاکستان اور اس کے معاشی مفادات بالخصوص چین پاکستان اقتصادی راہداری کے خلاف ’’پراکسی‘‘ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ افغان سر زمین پر دہشت گردوں کی موجودگی اور ان دہشت گردوں کا پاکستان میں داخل ہو کر تخریبی کارروائیاں کرنا سنگین معاملہ ہو چکا ہے ۔اس معاملے کی سنگینی کا ادراک عالمی سطح پر محسوس کیا جا رہا ہے اسی لئے امریکی محکمہ خارجہ نے افغان طالبان سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان کو دہشت گرد گروپوں، دہشت گردوں کی نقل و حرکت یا دہشت گردی کی کارروائیوں کی حمایت کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے یہ بات طالبان کو پاکستان کی جانب سے بار بار کی جانے والی شکایات کے تناظر میں کہی ہے کہ دہشت گرد سرحد پار سے حملے کر رہے ہیں اور پڑوسی ملک سے پاکستان میں دراندازی کر رہے ہیں۔طالبان کے اقتدار کیتین سال بعد بھی یہ سوال زندہ ہے کہ کیا افغانستان ایک بار پھر بین الاقوامی دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا۔ دیرینہ اندیشوں کی تصدیق دو سال قبل اس وقت ہوئی تھی، جب امریکی حکومت نے القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کیا ۔ایمن الظواہریافغانستان میں تھا۔ دوحہ معاہدے سے پہلے اور بعد میں طالبان نے امریکی مذاکرات کاروں کو بار بار یقین دہانیاں کرائیں کہ انہوں نے القاعدہ سے خود کو دور کر لیا ہے،الظواہری جیسے واقعات نے تشویش کو نمایاں طور پر بڑھایا ۔ایسا ہی معاملہ ٹی ٹی پی کے بارے میں ہے جس کے بارے میں پاکستان متعدد شکایات کر چکا ،ہر بار طالبان شکایات رفع کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشت گردی کر دیتی ہے۔اب احیتاط یہ کی جانے لگے ہے کہ چینی ماہرین پر حملوں میں ذیلی گمنام گروپوں کو استعمال کیا جانے لگا ہے۔پاک افغان سرحدی تعلقات کم ہی تسلی بخش رہے ہیں۔1949 سے افغان مسلح افواج اور پاکستان کی مسلح افواج کے درمیان وقفے وقفے سے مسلح جھڑپوں اور فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دشمنی کا تازہ ترین دور اپریل 2007 سے شروع ہوا ۔ تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند سرحد پر تعینات پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔ افغان سرزمین پر تحریک طالبان پاکستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی موجودگی پاکستانی سکیورٹی فورسز کی جانب سے افغانستان میں کچھ عرصہ پہلے کارروائی کی وجہ بنی ہے۔گزشتہ ماہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر اس وقت شدید جھڑپیں ہوئیں جب پاکستان نے حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے جیٹ طیاروں اور بغیر پائلٹ کے ڈرون کا استعمال کرتے ہوئے افغانستان کے اندر فضائی حملے کیے ۔افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستانی طیاروں نے سرحد کے ساتھ پکتیکا اور خوست صوبوں میں فضائی حملے کیے جس میں آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ جولائی 2023 میں ژوب گیریژن حملے میں "افغانستان سے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں"۔ مزید کہا گیا تھا کہ "ٹی ٹی پیکے دہشت گردوں نے جدید ترین امریکی ہتھیاروں سے سوات میں دو فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔اسی طرح میانوالی ایئر بیس پر نومبر میں ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں نے کی ۔ افغانستان سے آئے دہشت گردوں نے دسمبر میں ڈیرہ اسماعیل خان کے حملوں میں نائٹ ویژن چشموں اور غیر ملکی ہتھیاروں کا استعمال کیا۔ 15 دسمبر 2023 کو ٹانک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں افغانستان میں پناہ لینے والے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ جنوری 2023 میں پشاور پولیس لائنز دھماکے میں بھی افغانستان سے دہشت گرد ملوث تھے، جس میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔افغانستان کی سرزمین پر ٹھکانہ بنانے والے دہشت گردوں کی پاکستان میں کارروائیاں جہاں ظالبان حکومت اور پاکستان کے تعلقات کے لئے چیلنج ہیں وہاں ہماسئیہ ممالک کی تجارتی و معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہیں۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے افغان حکومت کو پاکستان کے تحفظات پر دھیان دینا ہو گا۔