کالم میں تعطل کا دورانیہ ذرا طویل ہوگیا،جس کا ایک سبب تو یہ ہوا کہ ماہِ رمضان المبارک میں ’’نورِ قرآنـ‘‘کی یومیہ ٹرانسمیشن کی ذمہ داری تفویض تھی،قرآنی افکار کی ترویج اور تدریس کے سبب اس کا مزاج اور معیار،معمول کی سحر اور افطار نشریات سے کُلیۃً مختلف تھا،اس معیار کو مہینہ بھر قائم رکھنے کے لیے نورِ قرآن کی پوری ٹیم سرگرم رہی،جس کی کامیابی کا کریڈٹ بہر حال اُن کے سَرہے۔دریں اثنا26 رمضان المبارک کو نورِ قرآن کے اپنے آخری پروگرام کے ساتھ ہی،بوقتِ شب حرمین شریفین کی حاضری کیلئے ایئر بلیو کی پرواز پی اے ۔470 دستیاب ہوئی ،جو کہ ان آخری ایام میں از حد غنیمت تھی ، یہ بلاوا اس قدر سُرعت آفریں تھا کہ آخری عشرے میں کسی بھی ایئر لائن پہ نشست کی دستیابی ناممکن نہیں تو قدرے مشکل ضرورتھی، بہر حال پرواز دستیاب ہوئی،جدہ کے انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے بلا توقف روانگی کی بدولت،اٹھائیسویں روزے کی بابرکت ساعتیں مکہ مکرمہ اوراُسی رات یعنی انتیسویں شب کی اختتامی دُعا اور قیامُ الّلیل مدینہ منورہ میں نصیب ہوا،زہے نصیب،وہ شہر ِخوباں اور قریۂ باصفا۔۔۔جس نے اپنی پلکوں سے قدومِ رسولﷺکو چوما اور اپنی آنکھوں کو اُن کے حُسن کے جلووں سے آراستہ کیا،جہاں اہلِ ایمان آج بھی حضورﷺکی خوشبو کو محسوس کرکے، مشام ِجاں کو معطر اور معنبر کرتے اور سامانِ راحت بناتے ہیں۔ تہذیبِ انسانی کی اوّلین جلوہ گاہ،اور اعلیٰ ترین اسلامی معاشرے کی تجربہ گاہ ۔۔۔ جس کی ضَونے پورے عالم ِ انسانیت کو متاثر کیا ور آفاقیت اور عالمگیریت کے نئے دَر وَا کیے۔مدینہ منورہ بلاشبہ مِلّت اسلامیہ کا دل ہے،جس کیساتھ ساری کائنات میں بسنے والے ہر کلمہ گوکا دل ہمیشہ دھڑکتا ہے اور دھٹرکتا رہے گا،اس لیے کہ یہی ایمان کی پہچان اور شناخت ہے۔بقولِ اقبالؒ : خاکِ طیبہ از دو عالم خوشتر است وے خنک شہرے کہ آنجا دلبر است کہ مدینہ منورہ کی ہوا وفضا اور خاک دونوں جہانوں سے پیاری ہے،کیسا راحت عطا کرنے والا شہر ہے ، جہاں محبوب ِخدا آرام فرما ہیں ۔ حضرت ِ اقبال نے’’ بلادِ اسلامیہ ‘‘ کے نام سے ایک طویل نظم ، جس میں قرطبہ ، بغداد ، دلّی اور قسطنطنیہ کے تذکرے کیے اور ان کی عظمت ِ رفتہ کو والہانہ انداز میں بیان کیا اور ماضی کے احوال کی مرثیہ خوانی اور قوم و ملّت کی زبوں حالی کا رونا اور دکھڑا بھی بیان کیا اور پھر شہرِ رسولﷺکے بیان پر اقبال کی نُطق و کلام پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی: وہ زمین ہے تو مگر اے خواب گاہِ مصطفی ؐ دید ہے کعبہ کو تیری حجِ اکبر سے سوا خاتمِ ہستی میں تو تاباں ہے مانندِ نگین اپنی عظمت کی ولادت گاہ تھی تیری زمین تجھ میں راحت شہنشاہِ معظم کو ملی جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو ملی اقبالؒ نے جو بات سو سال پہلے کہی،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو جنوری 2021ء میں اس کا ادراک اس وقت ہو ا،جب ساری دنیا کوویڈ کے موذی اثرات کی زَد میں تھی،اورہر طرف ایک سُکوتِ مرگ کا سماں تھا،تو انہوں نے اپنی ایک رپورٹ کے ذریعے اس امر کا اعتراف کیا کہ شہرِ رسولﷺ اس بحران میں بھی دنیا کا صحت مند ترین شہر اور محفوظ ترین مقام ہے ۔ بہر حال ۔۔۔ بقول ِ حافظ افضل فقیر: وہی ساعتیں تھیں عروج کی وہی دن تھے حاصلِ زندگی بحضورِ شافعِ اُمَّتاں میری جن دنوں طلبی رہی انتیسویں اور تیسویں روزے کی افطاری حرم نبوی میں میسر ہوئی اور پھر پاکستان اور سعودی عرب میں 10 اپریل کو ایک ساتھ عید الفطر کی خوشیاں دوبالا ہوئیں ۔ رمضان المبارک میں حرم ِ نبویﷺ میں افطار کی پُرنور اور کیف آفریں ساعتوں میں بھی عجیب لذت اور مستی ہوتی ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ جسیے ساری دنیا کے مسلمان شہرِ رسولکی چوکھٹ پر سمٹ آئے اور آپﷺکی بارگاہ میں افطار کے لحظوں سے بہرہ مند ہونے کے خواہاں اور طلبگار ہیں ۔ حرم نبویمیں افطار کے سُفروں کا اہتمام ایک خاص میکنزم کے ساتھ روبہ عمل ہوتا ہے اور عصر کے بعد ان کے منتظم، اپنے ہاتھوں سے رسول اللہﷺ کے درِ اقدس کے مہمانوں کے افطار کے لیے ان سُفروں پر اشیائِ خوردونوش آراستہ کرنے میں مصروف و مستعد اور منہمک ہوجاتے۔میرے قارئین! اب یقینا یہ جاننے کے خواہاں ہو ں گے کہ" سُفْرہ" کیا ہے ؟ یہ عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کا معنی زادِ راہ، کھانے کی میز اور بالخصوص وہ دسترخوان ہے، جو مسافر وں کے لیے آراستہ کیا گیا ہو ،"یعنی طعامُ المسافرین"،جبکہ معمول کے عام دسترخوان کومائدہ کہا جاتا ہے۔ حرمین میں تقریبا 98% زائرین مسافر ہوتے ہیں ، اس لیے اس دسترخوان کوسُفْرہ کہا جاتا ہے ۔حرم نبوی اور حرم ِ کعبہ میں ماہِ رمضان المبارک میں پولیتھین یعنی پلاسٹک کے لمبے دستر خوان، جو کافی حد تک سعودی گورنمنٹ کے طے شدہ معیار اور مقررہ شرائط کے مطابق، دنیا کے مختلف ادارے، قبیلے اور افراد بر س ہا برس سے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے شہر کے ان مہمانوں کے لیے لگانے کا اعزاز پاتے ہیں۔حرم نبوی میں اس سال یکم رمضان المبارک یعنی صرف پہلے روزے کو افطار کرنے والوں کی یہ تعداد ساڑھے چار لاکھ سے زائد تھی اور پھر جیسے جیسے وقت گزرتا رہا ، اس میں روز افزوں اضافہ ہوتا گیا، اور شہر ِ رسولﷺ کی یہ رونقیں آخری عشرے میں نقطہ عروج اور اوج ِ کمال پر تھیں، جہاں انواع و اقسام کے طعام نظر آئے، لاہور کی کشمیری چائے، اعلیٰ قسم کے پائے ، گوجرا نوالہ کے لذیز پکوان ، جن کے لیے منتظمین و مہتممین اپنے ساتھ ماہر باورچی لے کر مدینۃ الرسول، اس خدمت کی بجا آوری کے لیے پہنچے ہوئے تھے۔مسجد نبوی کی حدود میں افطارکے لیے ایک مخصوص مینیوہوتاہے،جس میں اعلیٰ قسم کی مختلف النوع کھجور،ہر دستر خوان پر بکثرت دستیاب ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ" زبادی"یعنی دہی ،جس کا وزن تقریبا250 گرام اور اس کے ساتھ ایک خاص قسم کی بریڈ ہوتی ہے ، دہی میں ڈالنے کے لیے ایک خاص عربی مصالحہ جسے "دُقّہ"کہا جاتا ہے ،وہ ، بڑی پیکنگ کے ساتھ "ساشے" میں بھی موجود ہوتا ہے ، جبکہ زمزم کی بکثرت اور بسہولت دستیابی ہمہ وقت رہتی ہے ، اذانِ مغرب اور نماز کے درمیان تقریبا ً پانچ سے سات منٹ کے دورانیے میں نہایت پُرامن اور اطمینان بخش ماحول میں تقریباً پانچ ،سات لاکھ روزہ دار، ان سارے مراحل سے اس طرح استفادہ کر لیتے ہیں کہ کسی سرگوشی کی آواز بھی بلند نہیں ہوتی ۔ یہی پلاسٹک کے دسترخوان جس سلیقے اور قرینے سے بِچھے ،اسی احتیاط اور اَدب سے سمٹ گئے، اور مغرب کی نماز کے لیے اقامت کی آواز بلند ہوئی اور یوں۔۔۔ قبلہ رُو ہوکے، زمین بوس ہوئی قومِ حجاز اَ دب ، محبت ،نیاز اور تواضع کے قرینے اور سلیقے ، کوئی وہاں سے سیکھے ،ہمارے خطّے کے صاحبانِ محبت عشاء کے بعد، بارگاہ ِ اہل ِ بقیع کے حضور ہدیہ محبت و عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ، اُحد کے دامن میں سیّد الشہدا حضرت امیر حمزہؓ کے حضور حاضری کا اہتمام کرتے ہیں ۔ جس کی تفصیل آئندہ (انشاء اللہ )