نہ کوئی اشک ہے باقی نہ ستارا کوئی اے مرے یار مرے دل کو سہارا کوئی چاند نکلا نہ سربام دیا ہے روشن شب گزرنے کا وسیلہ نہ اشارہ کوئی یہ تو سب ٹھیک ہے مگر ایک جذبہ پھر بھی سلامت رہتا ہے جو بہت طاقتور ہے ایک محبت ہے کہ شرمندہ آداب نہیں اس کے پیچھے کوئی مملکت نہ ادارہ کوئی اور حالات و واقعات بھی تو سامنے ہیں سعد بستی سے دھواں اٹھتا نظر آتا ہے خواب ٹوٹا ہے کہ ٹوٹا ہے ستارا کوئی۔ چلیے آج اداروں کی بات کرتے ہیں مگر آغاز ہی میں مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا غالباً تیس چالیس سال ادھر کی بات ہو گی۔ً بٹالوی صاحب نے ایک طالب علم کو سفارشی رقعہ دے کر عطاء الحق قاسمی کی طرف روانہ کیا۔ عطاء الحق قاسمی نے ریاض بٹالوی کا بھیجا ہوا سفارش نامہ کھولا لکھا تھا حامل رقعہ ہذا کا خیال ہے کہ علم حاصل کرنا چاہیے خواہ اس کے لئے ایم اے او کالج ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ بہرحال مندرجہ بالا خوش طبعی کی بات تھی وگرنہ علم کے دو سمندر اس کالج میں اکٹھے بہہ رہے تھے جناب امجد اسلام امجد اور عطاء الحق قاسمی۔ خیر آمدم برسر مطلب کہ آج کل اداروں کے ٹکرائو پر بہت بات ہو رہی ہے ایسے ہی جیسے ستارے ٹکراتے ہیں مگر قسمت کے۔ اصل میں میرے سامنے ایک خبر آئی تو اسے پڑھ کر ہنسی کو نہ روک سکا یہ کچھ ایسی ہی ہنسی تھی کہ جو کبھی سلیم کو آئی تھی کہ توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا بے ساختہ سرکار ہنسی آ گئی مجھ کو۔ خبر کمال کی ہے توہین پارلیمنٹ پر 6ماہ قید اور دس لاکھ جرمانہ کا بل قومی اسمبلی نے منظور کر لیا ۔پارلیمانی کمیٹی تحقیقات کرے گی حکومتی اور ریاستی عہدے دار کو طلب کیا جا سکے گا سزا کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔سیدھا ہی کہہ دیں کہ اب کے مارشل لاء سیاستدان لگائیں گے اور عدلیہ کو اس کی تصدیق کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی۔ تفنن ا یک طرف سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ پارلیمنٹ ہے کیا اس سے بھی پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ ہر ادارہ جسے آئین حق دیتا ہے اور وہ اپنے حدود میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے قابل تعظیم ہے۔اصل میں ہر ادارے کے لوگ جو اسے چلا رہے ہوتے ہیں اپنے کردار سے اس ادارے کی پہچان بنتے ہیں ایسا ادارہ ہی قوم و ملک کے لئے سود مند ہو سکتا ہے اس کے لئے ادارے کے لوگ تعلیم اور تربیت یافتہ ہوں اس کی ایک مثال تو میں بابائے قوم کی دوں گا کہ پارلیمانی اجلاس میں چائے کے انتظام کی بات ہوئی قائد نے کہا کہ ممبران گھر سے چائے پی کر آئیں۔ابھی ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے قائد کے لئے زیارت میں دو کک منگوائے گئے کہ اچھا کھانا بنائیں قائد اعظم کو پتہ چلا تو ان کے پیسے اپنی جیب سے ادا کئے اور آئندہ کے لئے تنبیہ کی کہ یہ عمل دہرایا نہ جائے اور ہمارے وزیر اعظم جو بھنڈیا کھانے کے لئے ایک ملک سے دوسرے مک کا سفر کر لیتے ہیں زبان کھد اور سری کھانے والے تو کک ہی ساتھ رکھتے ہیں۔ قبلہ ! یہ عزت کروائی نہیں جاتی بلکہ آپ ایسے کام کریں کہ عوام آپ پر فریفتہ ہو جائیں ایک لمحے کے لئے ٹھہریے کہ جب پرویز مشرف نے بی اے لازمی قرار دیا تو کیا ہوا تھا پارلیمنٹ جعلی ڈگری ہولڈرز سے بھر گئی تھی اور اس پر لطیفہ در لطیفہ یہ ہوا کہ اسلم رئیسانی نے کہا کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے وہ اصلی ہو یا جعلی۔جناب انگریزی میں کہتے ہیں فرسٹ ڈی زرو دین ڈزائر ۔پہلے آپ اس قابل تو ہو جائیں لوٹوں سے بھری اسمبلی کیسی عزت اور کیسی توقیر پہلے آپ ہمارے بن کر دکھائے ہمارے ساتھ رہیے عوام کے ساتھ غم اور خوشی منایئے اس مٹی سے جڑیے عوام کو تو آپ نے مہنگائی کی ٹکٹکی پر چڑھایا ہوا ہے اظہار شاہین نے کہا تھا: دیکھ مجھے مجبور نہ کر چپ رہنے دے ہو سکتا ہے دکھ پہنچے تجھے لہجے سے چھوڑ آیا ہوں شہر سے باہر پیشانی جھک کر آنا پڑتا تھا دروازے سے جناب اگر اچھے کام کریں گے ملک سے محبت کریں گے اپنے اثاثے اور بینک اکائونٹس ادھر رکھیں گے رعایا کے ساتھ جئیں اور مریں گے تو کون آپ کی بلائیں نہیں لے گا آپ قوانین بنا کر زبانیں بند نہیں کر سکتے ۔ ہم تو پیار کرنے والے ہیں کوئی اس قابل ملے تو سہی ہم تو راہوں میں آنکھیں بچھانے والے ہیں کوئی ہمارے ملک کے لئے مثال تو بنے ہماری تو دل کی دل ہی میں رہ جاتی ہے: دکھ تو یہ ہے اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو جس کے لئے گھر بار لٹایا جا سکتا تھا ہونا تو یہ چاہیے کہ یہ ادارے ایک دوسرے کو بے توقیر کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی عزت بڑھائیں۔آئین اور قانون کے مطابق چلیں اپنی غلطیوں پکا احساس کریں اور ملک کا سوچیں۔مگر یہاں تو معرکہ ہے طبل جنگ بج چکا ہے کوئی پروا نہیں کہ عوام کو آپ روندتے چلے جا رہے ہیں ہمیں تو یہی لگا کہ اب انصاف عدلیہ نہیں پارلیمنٹ دے گی۔ آخری بات یہ کہ 9مئی کے واقعات پر ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے گا اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس حوالے سے مکمل تحقیق ہو مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے مگر اس معاملے کو اپنی حکومت کو پروموٹ کرنے کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ 65ء کی جنگ کس کو یاد نہیں کہ فوجی جوانوں پر قوم نے زیور تک لٹا دیے فوج ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے ہمارے ملک کی حفاظت اس کے ذمہ ہے ہماری فوج ہمارے سر آنکھوں پر ۔ پارلیمنٹ کی بھی عزت ہونی چاہیے مگر عدلیہ کو بھی انصاف کرنے دیں اور جج صاحبان دکھائیں کہ انصاف ہو رہا ہے۔اختیار اللہ کی نعمت ہے آپ اس کا درست استعمال کریں نا کہ خود پر بھی اختیار کھو بیٹھیں۔مذاق دیکھیے کہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے پتھروں کی وین بھر کر پیشی پر آنے والے سپریم کورٹ کی بہتری کے لئے نکلے ہیں۔ سب سے آخر میں دست بدستہ یہ عرض ہے کہ پکڑے گئے نوجوانوں کو اگر نفسیاتی انداز میں ڈیل کیا جائے تو شاید بہت بہتر ہو ان سے بے شک بیگار لی جائے ۔حکمت از بس ضروری ہے۔