جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے کے مصداق صوبہ خیبرپختونخوا سے تحریک انصاف کو بڑا دھچکا دیتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز کے نام سے نئی جماعت بنا لی اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے خلاف وہ باتیں بھی کہہ دیں جو سننے کے قابل نہ تھیں۔ وسیب کو دوش دیا جاتا تھا کہ وہاں کے سیاسی لوگ وفاداریاں بدلنے میں دیر نہیں کرتے ، یہ بات کسی حد تک غلط بھی نہیں مگر خیبرپختونخوا کے پٹھان جن پر عمران خان کو بڑا ناز تھا اور عمران خان خود کو پٹھان کہلوانا پسند کرتے ہیں، انہی پٹھانوں نے ان کے ساتھ جو بے وفائی کی ہے اس کے بارے میں وہ خود بتائیں گے۔ آگے چل کر جو نئی سیاسی جماعت وجود میں لائی گئی ہے اس بارے میں بات کریں گے مگر عمران خان کو یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ عمران خان نے جس طرح صوبے کے نام پر ماحول بنوایا گیا اس کے بعد صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کرا کے سو دن میں صوبہ بنانے کا تحریری معاہدہ کیا گیا ، نیلی اجرکیں پہن کر بڑے ہوٹلوں میں صوبے کے حوالے سے تقریبات اور پریس کانفرنسیں ہوئیںاور 2018ء کے الیکشن کا منشور ہی صوبے کے قیام کا تھا ، سالہا سال سے وسیب کے پریشان حال لوگوں میں اس وقت صوبے کی آس اور امید جاگی ، وسیب کے لوگوں کو اپنی خواہشات اور تمنا پوری ہوتی نظر آئی مگر ان کو کیا پتہ تھا کہ بر سر اقتدار آنے کے بعدسب کچھ بھول کر وسیب کے لوگوں کی آس اور امیدوں پر پانی پھیر دیں گے ۔ وسیب سے ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا تھا، پہلے بھی ایسے ہوتا آ رہا تھا ، ایک انسانوں کا بنایا ہوا سسٹم ہے ، دوسرا قدرت کا اپنا نظام ہے ،مظلوموں ، محکوموں سے ہونے والی بے وفائی اور زیادتی پر قدرت انتقام لیتی ہے، واضح ہو کہ وسیب سے دھوکہ کرنے والوں کو پہلے بھی قدرت کی طرف سے سزا ملی، اس کی سب سے بڑی مثال (ن) لیگ تھی، پیپلز پارٹی بھی اسی راہ گزر سے گزری۔ آج عمران خان اور تحریک انصاف جن حالات سے دو چار ہے اس میں ان کی اپنی غلطیوں کے علاوہ وسیب کے کروڑوں لوگوں کی بد دعائیں بھی شامل ہیں کہ وسیب کو تحریک انصاف نے بھی انصاف نہ دیا۔ لیہ میں ملاقات کے دوران میں نے عمران خان کو ان کے دور حکومت میں پوری تفصیل کے ساتھ وسیب سے ہونے والی حق تلفیوں کے بارے بتایا تھا اور جس طرح وسیب کی شناخت کو مسخ کیا جا رہا تھا اس کا بھی اظہار کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ مرکز اور صوبے میں آپ کی حکومت وسیب کے مینڈیٹ کی وجہ سے قائم ہوئی ہے اور یہ مینڈیٹ آپ نے صوبے کے نام پر حاصل کیا۔ عمران خان نے دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی بات کی تو میں نے کہا تھا کہ فاٹا نشستوں میں اضافے کا بل اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بل پاس ہو چکا ہے ، اگر ملازمت میں توسیع کیلئے آئین بدل سکتا ہے ، اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو سکتی ہے تو وسیب کے کروڑوں انسانوں کی بہتری کیلئے کیوں نہیں؟۔ عمران خان کی اس بات پر کہ میں نے سائوتھ سے وزیر اعلیٰ لیا تو میں نے کہا تھا کہ وسیب کو وزیر اعلیٰ نہیں صوبہ چاہئے مگر افسوس کہ عمران خان اپنے وعدے کے باوجود بھی وسیب کو کچھ نہ دے سکے۔ اب بات کرتے ہیں عمران خان کے ان بہادروں کی جن پر عمران خان کو بڑا ناز اور گھمنڈ تھا آج وہ کیا کہہ رہے ہیں ؟ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز (پی ٹی آئی پی) کے سربراہ و سابق وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ سوال چھوڑے جارہا ہوں تحریک انصاف نے کیوں الیکشنز کا وقت ضائع کیا؟ یہ ایک بہت بڑا راز ہے، جب یہ راز کھلے گا تو سب کی آنکھیں کھل جائیں گی کہ پی ٹی آئی کا پروگرام کیا تھا؟ سوال بہت گہرا ہے، کیا وجوہات تھیں کہ تحریک انصاف نے الیکشن قبول نہ کیا۔ سوال یہ ہے کہ پرویز خٹک نے یہ بات پہلے کیوں نہیں کی ، جو بھی راز ہے اس کو افشاکیا جائے تاکہ قوم کو معلوم ہو کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ نئی پارٹی کے پہلے اجلاس سے خطاب میں پرویز خٹک کا کہنا تھاکہ ہمارے ساتھ ہم خیال ارکان اسمبلی اکٹھے ہوئے ، نئی پارٹی کی بنیاد رکھ دی ہے، پارٹی منشور اور جھنڈے سے متعلق جلد اعلان کریں گے، ہمارا فیصلہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ پرویز خٹک ، محمود خان اور دیگر لوگ عمران خان کیساتھ رہ کر پاکستان کے مفاد کے خلاف کام کر رہے تھے ؟ سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے سانحہ 9 مئی جیسے واقعات کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے وجود سے ہی ہم سب کا وجود ہے، تحریک انصاف کا خیبرپختونخوا سے مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔ 9 مئی تو کیا 9مئی کے بعد بھی یہ سب لوگ عمران خان کے ساتھ رہے ، اب مذمت کی جا رہی ہے تو اس کی معنویت سے کون آگاہ نہیں۔ جہاں تک تحریک انصاف کے خاتمے کی بات ہے تو اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آئندہ آنے والے وقتوں میں وہ تیسری مرتبہ خیبرپختونخوا کا اقتدار حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ 10 سال سے حکومت کرنے والی پارٹی صوبے کی سیاست سے ہی آئوٹ ہوگئی، سابق وزیراعلیٰ کے پی محمودخان، سابق وزرا اوردرجنوں ارکان شامل ہوئے ہیں جبکہ نئی پارٹی میں گزشتہ حکومت سے وابستہ 57 سے زائد اراکین اسمبلی شامل ہیں مگر تحریک انصاف کے کئی سابق ارکان اسمبلی نے نئی پارٹی میں شمولیت کی تردید بھی کی ہے۔ یہ بھی دیکھئے کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز اجلاس میں شرکت کیلئے 2 سابق ایم پی ایز کو جیل سے لایا گیا،سابق ارکان کے پی اسمبلی ملک واجد اور ارباب وسیم جوڈیشل ریمانڈ پر پشاورجیل میں قید تھے، دونوں ملزمان کی 15جولائی کو درخواست ضمانت خارج کردی گئی تھی جس کے بعد انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ سیاسی حوالے سے جو تماشا لگا ہوا ہے اس کی سمجھ شاید عمران خان کو اب آ جائے کہ وہ جن سیاستدانوں اور ارکان اسمبلی کو لوٹا کہہ کر گالیاں دیتے تھے دراصل وہی لوٹے ہی ان کی جماعت میں جمع کئے گئے تھے اور وقت بدلا ہے تو وہی لوٹے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیں۔