تقریباً پورے چار سال بعد بھارتی سپریم کورٹ ریاست جموں و کشمیر کو تحلیل کرنے اور اسکودولخت کرکے مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر دو اگست سے روزانہ سماعت کریگا۔ 5 اگست 2019 کو وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے اہم مندرجات کو ختم کر دیا تھا۔ اسی کے ساتھ دفعہ 35اے، جس کی رو سے ریاستی باشندوں کو خصوصی او ر علیحدہ شہریت کے حقوق حاصل تھے، کو بھی منسوخ کردیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے فریقین کو 27جولائی تک دستاویزات جمع کرنے کیلئے کہا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ چیف جسٹس، جسٹس دھنن جے چندراچوڑ نے سرینگر کے ایک روز دورہ سے واپسی پر دفعہ 370پر زیر التوا درخواستوں پر سماعت کرنے کا اچانک فیصلہ کردیا۔ آخر سرینگر میں ان کو کیا کچھ نظر آیا ، جس کی وجہ سے انہوں نے سماعت کا فیصلہ کیا، پر تجسس ابھی تک برقرار ہے۔ گو کہ کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی موخر ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمہ کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچہ پر دور رس اثرات مرتب ہونگے، اسلئے شاید سپریم کورٹ کو اسکو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچہ اور دیگر ریاستوں پر اسکے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اس تناظر میں امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ دار رسی کا انتظام کر پائیگا۔ دفعہ 370 کی قانونی حیثیت و افادیت کے علاوہ سپریم کورٹ کے سامنے جو بڑے سوالات ہیں، وہ یہ ہیں کہ بھارتی پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے بھی، کیا یہ ممکن ہے کہ عددی طاقت کے بل پر کسی بھی ریاست کو دولخت کرکے اس کو مرکز کازیر انتظام علاقہ بنایا جا سکتا ہے؟ کیا اس سلسلے میں اس خطے کی اسمبلی یا اس خطے کے اراکین پارلیمان کی رائے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ دہلی میں میرے جرنلز م کے کیریئرکے دوران اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، نئے صوبہ تشکیل دئے گئے ۔ ان میں جو طریقہ کار اپنایا گیا وہ یہ تھا کہ ریاستی اسمبلیوں نے پہلے صوبہ کی تشکیل نو کیلئے ایک قرار دار منظور کرکے اس کو مرکزی حکومت کو بھیجا۔ مرکزی کابینہ نے اس کو منظوری دیکر ایک بل ڈرافٹ کرکے اس کو پھر ریاستی اسمبلی کو منظوری کیلئے بھیجا۔ اس کے بعد اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے پاس کرنے سے قبل ہائوس کمیٹی کے سپرد کرکے اسکے خد و خال کا جائزہ لیاگیا۔ صرف تلنگانہ کے معاملے میں اس طریقہ کو درکنا ر کیا گیا مگراس معاملے میں بھی کئی برس قبل آندھرا پردیش کی اسمبلی قرار دار پاس کر چکی تھی۔ بعد میں اس اسمبلی نے اپنا موقف تبدیل کردیا تھا۔ مگر اس وقت کانگریس کی قیادت میں مرکزی حکومت نے پچھلی قرار داد کی بنیاد پر زبردست ہنگامہ اور شور شرابہ کے دوران پارلیمنٹ سے اس نئے صوبہ کی تشکیل کا بل پاس کروایا۔ اگر ریاستوں کو تحلیل کرنے اور ان کومرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے عمل کوسپریم کورٹ تسلیم کرتا ہے، تو اس سے بھارت کے پورے وفاقی ڈھانچہ کے مسمار ہونے کا خطرہ ہے۔ ماضی میں نظم و نسق وغیرہ کا بہانہ لیکر مرکزی حکومتوں نے تو کئی بار اپوزیشن کی زیر قیادت صوبوں کی منتخب حکومتوں کو برخاست کیا ہے،مگر بعد میں سپریم کورٹ نے ایس آر بومئی کیس میں اس پر کئی رہنما اصول طے کئے ہیں، جس کے بعد مرکزی حکومتوں کیلئے صوبوں کی حکومتوں کر برخاست کرنے پر لگام لگ گئی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کابنچ اس معاملے کی سماعت کریگا۔ اس بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بھوشن رام کرشن گاوائی اور جسٹس سوریا کانت ہوں گے۔ جسٹس کول کے بغیر بقیہ تینوں جج اگلے کئی سالوں میں خود چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونگے۔ جسٹس چندراچوڑکے والد یشونت ویشنو چندراچوڑ بھی ملک کے 16ویں چیف جسٹس رہے ہیں۔ وہ 1978سے 1985تک اس عہدے پر فائز تھے۔ وہ بھارت کی سول سوسائٹی کیلئے کچھ اچھی یادیں چھوڑ کر نہیں گئے۔ 1984 میں بھوپال شہر میں زہریلی گیس کے اخراج کے بعد، جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئیں، تو انہوں نے امریکی کمپنی یونین کاربائیڈ کے سربراہ وارن اینڈرسن کو ملک کے باہر جانے میں مدددی۔ ان پر مقدمہ بھی نہیں چلایا جاسکا۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی تصدیق کے بغیر ہی فروری 1984میں انہوں نے کشمیری لیڈر مقبول بٹ کی سزائے موت کے فرمان کے خلاف پیٹیشن خارج کی۔ اگلے دن ہی بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی۔ مگر ان کے فرزند موجودہ چیف جسٹس اپنے اعتدال پسندانہ رویہ اور معرکتہ االارا فیصلوں کی وجہ سے اپنے والد کے برعکس سول سوسائٹی کے چہیتے ہیں۔ انہوں نے اظہار آزدی، ذاتی شخصی آزادی، حق راز داری وغیر ہ جیسے قوانین کی تشریح کرکے اور ان پر فیصلہ دیتے وقت عوامی مفاد کو مقدم رکھ کر دلوں کو موہ لیا ہے۔ 2000میں ممبئی ہائی کورٹ میں جج کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل انکو 1998میں اٹل بہاری واجپائی کے اقتدار میں آتے ہی ایڈیشنل سولسٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ اس دوران ان سے کئی بار شرف ملاقات حاصل ہوچکی ہے۔ دوسرے جج جسٹس سنجے کشن کول ہیں، جو کشمیری پنڈت ہیں۔ وہ سورج کشن کول کے خاندان کے چشم و چراغ ہیں، جو ڈوگرہ حکومت میں وزیر مالیات ہوتے تھے۔ وہ اور انکے ایک اور برادر دہلی ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں۔بطور دہلی ہائی کورٹ جج انہوں نے معروف مصور مرحوم ایم ایف حسین کے خلاف ہندو تنظیموں کی پیٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے ، بزرگ مصور کو ایک بڑی راحت دی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ہندو دیوی دیوتاوٗں کی برہنہ تصاویر بنائی تھیں۔ اس فیصلہ میں انہوں نے لکھا تھا۔ ــ’’تکثیریت اور یگانگت جمہوریت کی روح ہوتی ہے۔ جس سوچ کو ہم پسند نہیں کرتے ہیں، اس کے اظہار کی بھی آزاد ی ہونا ضروری ہے۔ اگر تقریر یا اظہار رائے کے بعد آزادی نہ ہو، تو یہ آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ جمہوریت کی حقیقت آزادی اور ناقدین کو برداشت کرنے میں مضمر ہے۔‘‘ تیسرے جج جسٹس سنجیو کھنہ ہیں، جو پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بھی ججوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ نومبر 2024 کو وہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ان کے والد ونود راج کھنہ دہلی ہائی کورٹ میں جج تھے۔ وہ بھارت کے ایک مشہور و معروف جج جسٹس ہنس راج کھنہ کے بھتیجے ہیں۔ انہوں نے 1976میں آنجہانی وزیر اعظم اندراگاندھی کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ اور بنیادی حقوق کی معطلی کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔جبکہ بینچ کے دیگر ججوں نے اسکی حمایت کی تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو چیف جسٹس نہیں بننے دیا گیا تھا۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ 1982کے صدرارتی انتخابات میں گیانی ذیل سنگھ کے خلاف وہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار تھے ۔ جسٹس کھنہ مئی 2025کو چیف جسٹس بن جائیں گے۔ اس بینچ کے چوتھے جج بھوشن رام کرشن گاوائی ہیں۔ وہ اس وقت سپریم کورٹ کے واحد دلت جج ہیں۔وہ مئی 2025 چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ 2010میں جسٹس بالا کرشنن کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پہلے دلت چیف جسٹس اور بھارت کی تاریخ میں دوسرے دلت چیف جسٹس ہونگے۔ فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کل 569ججو ں میں صرف 17دلت کمیونٹی سے ، نو درجہ فہرست قبائل سے، 15اقلیتی فرقہ سے اور 64دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد آر، ایس گاوائی مہاراشٹرہ کے مشہور دلت رہنما تھے۔ وہ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ تھے۔ یہ پارٹی بھارت کے معروف دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راو امیبڈکر نے تشکیل دی تھی۔گاوائی بد ھ مت سے تعلق رکھتے ہیں۔ پانچویں جج جسٹس سوریہ کانت کا تعلق ہریانہ صوبہ سے ہے۔ جج بننے سے قبل وہ قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم رہے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ میں جج کے عہدے پر رہتے ہوئے بھی انہوں نے جیلوں میں اصلاحات کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ممبئی میں بھارت کے معروف ادارے ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز، جو جیلوں کی اصلاحات کے سلسلے میں ورک شاپ کا انعقاد کرتے ہیں، کے دوران جسٹس سوریہ کانت سے ملاقات اور ان کے لیکچرز سننے کا کئی بار موقع ملا ہے۔ امید ہے کہ دو اگست کے بعد جب کشمیر کی خصوصی حیثیت پر بحث ہوگی، تو یہ جج صاحبان اس کا معروضی جائزہ لیکر ایک معروضی فیصلہ پر پہنچ کر اپنا نام اور کام تاریخ میں درج کروائیں گے۔