جلاؤ گھیراؤ،ماردھاڑ اور اِس پکڑدھکڑ کے دھندلکوں میں روشنی اور امید سے آراستہ کوئی اچھی خبر بھی میسر آئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک وائس چانسلر نے کہا تھا کہ سوسائٹی میں اگر عروج، ارتقا اور بلندی چاہتے ہو تو ہر وہ ادارے مضبوط کرو جہاں سے تعمیر، سیرت اور تشکیل کردار کے سَوتے پھوٹتے ہیں، اس نے کہا تھا کہ برصغیر میں اِس حوالے سے سب سے مضبوط ادارہ" خانقاہ" کا ہے، جس نے اِس خطے کو عظیم سماجی انقلاب سے آشناکر کے، ذات پات اور کالے و گورے کی تقسیم ختم کر کے ان کو ایک دستر خوان پر اکٹھا کردیا۔ بہر حال۔۔۔وزیرِ اعلیٰ پنجاب سیّد محسن رضا نقوی اور وفاقی وزیر سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی چھتر چھاؤں میں، ایک روز قبل ایوانِ وزیر اعلیٰ،7 کلب روڈپر، حضرتِ داتا گنج بخشؒ کے مزارِ اقدس اور خانقاہِ معلی کے گرد برآمدوں کی توسیع کے سلسلے میں خصوصی اجلاس منعقد ہوا،جس میں مدینہ فاؤنڈیشن کے سربراہ میاں محمد رشید،وزیر اوقاف پنجاب بیرسٹر سیّد اظفر علی ناصر، سیکرٹری/چیف ایڈ منسٹریٹر اوقاف پنجاب ڈاکٹر طاہر رضا بخاری، چیئرمین مدینہ فاؤنڈیشن اسلم ترین، جنرل منیجر نیسپاک پرائیویٹ لمیٹڈعادل نذیر،ڈائریکٹر پراجیکٹس اوقاف پنجاب رفیق نور وٹو، خطیب جامع مسجد داتا دربار مفتی محمد رمضان سیالوی، ایڈ منسٹریٹر اوقاف داتا دربار شاہد حمیدورک نے شرکت کی۔ حضرت داتا گنج بخشؒ کی خانقاہ اس وقت 56 کینال پر محیط ہے، جس میں مسجد، مزار شریف اور داتا دربار کمپلیکس شامل ہیں۔ دربار شریف کی مسجد کی تعمیر نو 1985ئ￿ میں ہوئی۔ ازاں بعد27کنال رقبہ پر محیط سہ منزلہ داتادربار کمپلیکس مئی 1999ء میں مکمل ہوا۔مزار شریف اور اِس کے گرد برآمدے، جنہیں ازراہِ محبت و عقیدت’’غلام گردش ‘‘ کہا جاتا ہے، کی تعمیر تقریبا ایک سو سال قدیم ہے۔ جس کے سبب یہ ایریاتزئین و توسیع کا متقاضی تھا۔ اِس ضمن میں مدینہ فاؤنڈیشن، جس کے ذمہ داران دربارشریف سے از حد عقید ت رکھتے ہیں، نے اپنے وسائل سے غلام گردش کی توسیع اور تزئین کے لیے بڑی محنت اور کاوش سے مشہور مشاورتی فرم میسرز نیسپاک کے ذریعے ایک پراجیکٹ تیار کر کے، محکمہ کو تین مختلف تجاویز/ڈیزائن پیش کرتے ہوئے، پیش کش کی کہ منصوبہ ہذا پر آنے والے تمام اخراجات مدینہ فاؤنڈیشن ادا کرے گی۔ محکمانہ ڈویلپمنٹ سب کمیٹی(DDSC)نے اپنے ایک خصوصی اجلاس کے دوران مجوزہ توسیع برآمدہ" غلام گردش" کے منصوبہ سے اصولی اتفا ق کیا۔مزید براں پنجاب گورنمنٹ نے" سپیشل پریمسزکمیٹی " کے اجلاس زیر صدارت جناب چیف سیکرٹری پنجاب، اس توسیعی منصوبے کے مجوزہ ڈیزائن پر غور وخوض و ضروری ترامیم کے بعد توسیع برآمدہ"غلام گردش"کے لیے"این او سی" جاری کردیا۔مجوزہ منصوبے کی مانیٹرنگ کے لیے متعلقہ سٹیک ہولڈرز پر مشتمل اعلیٰ سطحی مانیٹرنگ کمیٹی ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ اوقاف و مذہبی امور کی سربراہی میں تشکیل دے دی گئی ہے۔ یہ منصوبہ 153.160ملین کی خطیر رقم سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔جس کی جملہ ذمہ داری مدینہ فاؤنڈیشن نے قبول کی ہے اور اس سے گورنمنٹ پر کسی قسم کا کوئی مالی بوجھ نہ آئے گا۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد"غلام گردش"اور ان برآمدوں میں زائرین کی گنجائش تین ہزار سے بڑھ کر پانچ ہزار ہوجائے گی۔ اس منصوبے میں نیسپاک بطور مشاورتی فرم خدمات سر انجام دے گی اور منصوبہ ہذا کی تکینکی ضروریات کے پیش نظر مدینہ فاؤنڈیشن نے مشاورتی فرم میسرز نیسپاک کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا ہے۔اجلاس میں منصوبے کی تفصیلی بریفنگ ہوئی، جس پر شرکاء اجلاس کی طرف سے تحسین و تبریک ایک فطری امر تھا، وزیر اعلیٰ پنجاب از خود حضرت داتاگنج بخشؒ کے دربار گوہر بار سے بے پناہ قلبی اور دلی لگاؤ رکھتے ہیں اور اس حوالے سے جب وفاقی وزیر سینیٹر محمد اسحاق ڈار کی معیت و مصاحبت میسر آجائے تو پھر معاملہ یقینا دو آتشہ ہوجاتا ہے۔ ہر دو شخصیات نے اس منصوبے کو دربار کی تعمیر و ترقی کا ابتدائی فیز قرار دے کر آئندہ کے لیے، فیز IIکی فوری منصوبہ بندی کی ہدایت کردی۔ جس کے مطابق مزار شریف کی تعمیر و توسیع کے ساتھ جدید لنگر خانہ اور زائرین کے لیے بین الاقوامی معیار کے حامل ڈائننگ ہال کی ترتیب و تشکیل بطور خاص شامل ہے۔ مزید یہ کہ داتادربار کمپلیکس کے بیسمنٹ میں تقریباً دو سو گاڑیوں کی وسیع و عریض کارپارکنگ گزشتہ 12 سال سے مقفل و معطل ہے۔اس خطے میں دہشت گردی کے سائے جب پھیلے تو انہوں نے سب سے زیادہ امن و محبت اور فلاح و صلاح کے ان مراکز کو نشانہ بنایا، کہ جہاں سے رواداری، اخوت، بھائی چارے اور انسان دوستی کی آواز بلند ہوتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ شاید ایسا کرنے سے یہاں کی رونقیں مدہم اور ایمان و ابقان کی روشنیاں محدودہوجائیں گی۔ لیکن یہ تو ان فرسودہ دماغ دہشت گردوں کی خام خیالی تھی۔ انہوں انداز نہیں تھا کہ؛ وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے بہر حال!سیّد محسن رضا نقوی اور وفاقی وزیرسینیٹر محمد اسحاق ڈار کے ویژن کے مطابق دربار روڈ بجانب گولڈن گیٹ، وقف اراضی سترہ کنال کو اِس ضمن میں بروئے کار لایا جائے گا، اسی طرح مسجد کے عقب یعنی محراب کی جانب تقریبا 6 کنال اراضی کا حصول بذریعہ لینڈ ایکوزیشن بھی زیر غور ہے۔تاریخ یہی بتاتی ہے کہ یہاں جو صاحبِ اختیار واقتدار۔۔۔عجزو نیاز سے حاضر ہوا اور پھر اپنے وسائل و ثروت کو اِن صوفیاء کی خانقاہوں اور آستانوں کی و سعت اور لنگر کی ترویج کے لیے صَرف کیا، تو یہ امر ان کے لیے خیرو برکت کا موجب بنا۔ حضرت داتا گنج بخشؒ ایک ہزار سال قبل یہاں تشریف فرما ہوئے، یقینا آپ نے اپنی خانقاہ اور مسجد کی تعمیر از خود فرمائی۔ آپؒ کے مزار کی اوّلین تعمیر کا اہتمام سلطان محمود غزنوی کے برادرزادہ ظہیر الدولہ سلطان ابراہیم بن سلطان مسعود غزنوی نے کیا۔ مزار پر ابتدائی طور پر گنبد کی تعمیر تقریباً دو سو سال قبل ہوئی۔ دربار شریف کی قدیمی مسجدجس کو بچپن میں ہم نے بھی د یکھا، جس کے نقش ابھی بھی ذہن میں محفوظ ہیں، ازحد دیدہ زیب اور مسلم طرزِ تعمیر کی عظیم روایت کی امین اور علمبردار تھی۔محکمہ اوقاف نے جب مزار کو اپنی تحویل میں لیا تو اس وقت کل رقبہ چھ کنال اور چند مرلے تھا۔ملحقہ دیگر رقبہ جات مجاوروں اور دیگر لوگوں کے قبضے میں تھے،جوکہ طویل قانونی جنگ کے بعد محکمہ کے قبضے میں آئے۔ اس کے ساتھ محکمہ نے زائرین کی سہولت کے لیے دربار شریف کی توسیع کی ضرورت بالکل ابتدا ہی میں محسوس کرلی۔ چنانچہ مارشل لا آرڈر193 بمطابق 21 اگست1971ء کے تحت 15 کنال کا رقبہ خرید کر کے خانقاہ کا حصّہ بنایا۔داتا دربار لاہور میں آنے والے نوواردین کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ دنیا کے میگا سٹیزسماجی سطح پر جن مسائل سے دوچار ہیں، ان میں پسماندہ طبقات کے لیے کھانے کی فراہمی اور قیام/رہائش کے لیے چھت کی دستیابی اہم ترین ہے۔ تیسرا مسئلہ مایوسی اور دل شکستگی (Frustration) کا ہے، جس کا بعض اوقات آسودہ حال لوگ بھی شکار رہتے ہیں، جس کیلیے یورپ سمیت دنیا بھر میں ماہرین نفسیات ارزاں ہیں۔ بڑے شہروں میں لاہور کو یہ سعادت میسر ہے کہ اس میں ہر مقیم اور مسافر کے لیے داتا دربار موجود ہے، جہاں لنگر کا وسیع دسترخوان ہر وقت آراستہ رہتا ہے۔ نوواردانِ چمن کیلیے سر چھپانے کی بھی کوئی نہ کوئی سبیل نکل آتی اور اگر کسی پر کوئی ناکامی، محرومی اور مایوسی کا غلبہ ہو،تو داتا صاحب کی بارگاہ میں اپنی پھِبتا سنا کر،اپنے دل کا بوجھ بھی ہلکا کر لیتے ہیں،اوریوں اسے کسی سائیکالوجسٹ کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ویسے بھی لاہور کے ایک صوفی سکالر کہا کرتے تھے کہ حضرت داتاؒ صاحب لاہور اور لاہوریوں سے بڑی محبت کرتے ہیں، داتاؒ صاحب ان کے خوش ہونے پر آسودہ اور ان کے دکھوں پر آزردہ ہوتے ہیں۔