کیسی چمک تھی اٹھتے ہوئے آفتاب کی چشم شکم نے روح کی مٹی خراب کی رہوار عشق دشت جنوں میں کہاں چلے اس دل کے ساتھ کس نے خرد ہمرکاب کی لیکن اقبال نے تو کہا تھا اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عشق۔لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے لیکن ہم تو تذکرہ کرنے چلے ہیں اور ہی قسم کے لوگوں کا جو صرف معدے سے سوچتے ہیں۔ ویسے کمال کی صورت حال ہے کہ جھگڑا سارا انتخابات کا ہے کہ عوام کو فیصلہ کرنے دیا جائے ۔ ایسے ہی ذھن میں آ گیا کہ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں۔ چلیے اگر موت سے ڈر لگتا ہے تو یوں کہہ لیں کہ جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا۔ مسئلہ اور بھی دلچسپ اس وقت لگ رہا ہے کہ خان صاحب واپس پلٹنا چاہتے ہیں اور مخالفین اس انداز پر ششدر بھی رہ گئے اور پریشاں بھی ہو رہے ہیں۔ بہرحال خاں صاحب کی اس شیریں سخنی پر سب سخن سناش حیرت کا اظہار کر رہے ہیں مگر یہ سیاست ہے: ہمیں زمانے نے سب کچھ سکھا دیا ورنہ ہمارے پاس تو ایسا کوئی کمال نہ تھا دیکھا جائے تو خان صاحب اس سے پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ تو ان کی دخل اندازی کو بھی غلط نہیں سمجھتے تھے مگر یہ دخل اندازی ان کے مطابق ڈاکوئوں اور چوروں کے لئے نہ ہو دوسرا انہیںیہ بھی رنج رہا کہ باجوہ صاحب نے ہاتھ میں آیا ہوا طوطا اڑا دیا اور اسی طوطے میں تو سب دشمنوں کی جان تھی آپ کو اس طوطے کی کہانی تو یاد ہو گی جو پیغام سن کر گرا تو مالک نے اسے پنجرے سے نکالا تو وہ اڑ گیا۔مالک پیغام اور طوطے کی سمجھ پر حیران رہ گیا لیکن طوطا آزاد رہنے کا عادی ہو چکا۔ وہ اپنوں میں بھی واپس نہیں آ رہا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے لئے ایک پریشانی تو ہے کہ یہ ان کے لئے کڑے امتحان کے دن ہیں امین اسلم ڈاکٹر امجد ہمراہ تھے اور کئی سابق ایم پی ایز نے پی ٹی آئی چھوڑ دی ہے ۔ شاید کہ میرا گمان ہو کہ مقبول لیڈر کو یا کسی جماعت کو لوگوں کے نکل جانے سے اتنا فرق نہیں پڑتا۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ اب امیج کو درست کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا مگر خان صاحب کے انتہائی سیاسی شعور کی نشاندہی یہ بات کر تی ہے کہ انہوں نے اپنی پہاڑ جیسی انا توڑ کر کہا ہے کہ سیاسی لوگوں کے ساتھ بیٹھنا انتہائی ضروری ہے تاکہ جمہوری عمل چل سکے لیکن جب کوئی دوسرا بچہ جمورا بن جائے تو اسے اپنے وقتی مفاد نظر آنے لگتے ہیں اور یہی کچھ آج تک ہوتا چلا آیا ہے میں نے کوئی نکتہ آفرینی نہیں کی بچہ بچہ یہ بات جان چکا ہے۔ایسے ہی ایک شعر یاد آ گیا: اس زندگی کا سانحہ کتنا عجیب ہے ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن اور کے ساتھ وہی جو سعدی نے پناہ چاہی تھی اور ایک تعویذ لکھ کر دیا تھا کہ بیٹا ہو جائے وہ تعویذ جب چوری ہوا تو اس پر یہی لکھا تھا کہ اللہ میاں مجھے اور میرے گدھے کو قیام کے لئے پناہ مل گئی ہے آگے کمہارن کو بیٹا ہو یا بیٹی وہ تیرا اختیار ہے۔تو جناب حکومت فی الحال موج میں ہے کہ جیسے ماضی میں کچھ حادثات عمران خاں کو فائدہ پہنچا جاتے تھے اب کے اس کے بینی فشری حکومت کی پارٹیاں ہیں یقیناً وہ اس وقت سے فائدہ تو اٹھائیں گی۔ ایران کے ساتھ منصوبے بن رہے ہیں بجلی منصوبے کا افتتاح بھی ہو چکا ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تحقیق ہو کہ ملک کے اثاثوں کو آگ کس نے لگائی۔ اب دیکھیے محسن نقوی صاحب فرماتے ہیں کہ عسکری تنصیبات پر حملے ایک منصوبہ بندی سے ہوئے اور یہی بات پی ٹی آئی والے بھی کہہ رہے ہیں کہ اس کے پیچھے گہری سازش ہے لیکن برڈن آف پروف کس پر ہے! وہ جو لوگ پکڑے گئے ہیں وہ کون ہیں؟ دونوں طرف سے دلائل دیے جا رہے ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ لوگوں کو وہاں تک جانے ہی کیوں دیا گیا جواب میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس انتہائی قدم کی رہنمائوں سے توقع نہیں تھی دوسرا یہ کہ انتہائی عقل مندی کی کہ کو ر کمانڈر نے فری ہینڈ دے دیا گیا وگرنہ لاشیں گرتیں اور حالات کنٹرول سے باہر ہو جاتے جو بھی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے فی الحال تو سب محو حیرت ہیں۔ابھی بھی مذاکرات کی کوششیں جاری ہیں کہ کہیں مکالمہ تو ہو مگر شاید یہ کچھ زیادہ ہی حساس معاملہ ہے یہ ریشم کے دھاگے پر پڑی گانٹھیں ہیں کہ اب کو ناخن تدبیر شاید ہی کارگر ہو: اپنا تو اصل زر سے بھی نقصان بڑھ گیا سچ مچ کا عشق مر گیا اک دل لگی کے ساتھ سچی بات ہے کہ ہمیں اس موقع پر صدر عارف علوی صاحب کی بات پسند آئی کہ عمران خاں کو موجودہ توڑ پھوڑ پر اس عمل کی پرزور مذمت کرنی چاہیے ویسے عام دانش بھی اس کا تقاضا کرتی ہے مصیبت تو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ جوں جوں اس سے انکار کرتے ہیں مخالفین ڈھونڈ ڈھونڈ کر ویڈیوز سوشل میڈیا پر لا رہے ہیں۔اس موقع پر سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہو گا یہ منظر مجھے بھایا کہ شیریں مزاری نے رہائی پر وکٹری کا نشان بنایا تو ان کی بیٹی نے ان کا بازو پکڑ کر نیچے کر دیا اور زیادہ بولنے سے منع کیا۔اس وقت عمران خاں پر پریشر بڑھایا جا رہا ہے ایک تو فوج کے حق میں نکلنے والی ریلیاں ہیں ظاہر ہے یہ ریلیاں فوجی تو نہیں نکال رہے آخر اس کا انتظام و انصرام سیاسی پارٹی ہی کر رہی ہو گی دوسری طرف مولانا فضل الرحمن مسلسل عدلیہ پر سہولت کاری کا الزام لگا رہے ہیں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انتشار کس کے حق میں جا رہا ہے شاید میں آپ کو بات سمجھا پائوں کہ پی ٹی آئی جس مقام پر حالات کو لانا چاہتی تھی وہ مقام مزید دور ہوتا نظر آ رہا ہے یقینا حکومت اپنے آپ کو عوام کے لئے قابل قبول بنانے کے چکر میں ہے دوسری طرف عمران خاں اور دوسرے رہنمائوں کو بھی نیا بیانیہ بنا کر اپنے آپ کو بری کروانا ہو گا مقبولیت اب بھی عمران خاں کے پاس ہے اب مسئلہ قبولیت کا آن پڑا ہے۔