انتخابات کے لے پولنگ میں چند گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔ 2024 ء کے انتخابات ملکی تاریخ کے انوکھے انتخابات میں ویسے تو پاکستان میں گزشتہ ستر برس کے دوران ہونے والے سارے انتخابات کے بارے میں شکو ک شبہات کا اظہار ہوتا رہا ہے کہ شفاف تھے یا نہیں ۔ لیکن 2024 ء کے الیکشن کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر سے کئی تکلیف دہ سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔1977 کے مارشل لاء کے نفاذ اور پاکستان کے منتخب سویلین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کیلئے پاکستان سیاسی سپیس Political Space مسلسل سکڑتی جا رہی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977 ء کو مارشل لا ء لگانے کے بعد قوم سے خطاب میں وعدہ کیا تھا کہ فوج نوے دن کے اندر انتخابات کراکے واپس بیرکوں میں چلی جائے گی۔ لیکن جنرل ضیاء الحق نوے دن کی بجائے نو ہزار دن سے بھی زیادہ فوجی وردی پہن کر ملک پر حکمرانی کرتے رہے ۔ 1985 ء میں انہوںنے بیرونی دبائو پر انتخابات کرائے لیکن یہ انتخابات پھانسی کے بعد جن کا پاکستان کے تمام اہم جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔اس وقت مختلف سیاسی جماعتوں کی جو افراد قیاد ت کر رہے ہیں اُن کی اکثریت 1985 ء کے انتخابات میں سامنے آئی تھی۔ یہ انتخابات بھی ایک طرح سے ’’کنڑولڈ‘‘ انتخابات تھے۔ جن کے نتائج مقدرہ کیلئے مثبت تھے۔ 1988 ء میں جو پارٹی کی بنیادوں پر انتخابات ہوئے تھے اس میں مقتد ر قوتوں کے زیر عتاب رہنے والی پیپلز پارٹی سی لیڈر بے نظیر وزیر اعظم بنیں لیکن اُن کی پنجاب میں حکومت نہیں بن سکی ۔ بے نظیر کو آرٹیکل 58(2) بی کو استعمال کرتے ہوئے اٹھارہ ماہ بعد ہٹا دیا گیا۔ 1990 ء میں انتخابات ہوگئے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف وزیراعظم بن گئے ۔ انہیں اور ان کی حکومت کو بھی دو اڑھائی سال کے بعد 58 (2 ) بی کے تحت گھر بھیج دی گیا۔ 1993 ء کے آخر میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی ۔ لیکن اُن کی حکومت کو نومبر 1996 ء میں پیپلز پارٹی کے ہی صدر فاروق خان لغاری کے ذریعے ڈسمس کر دیا گیا۔ 1997 ء میں نواز شریف کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ واپس لایا گیا۔ لیکن اکتوبر 1999 ء کو اُن کی حکومت کو ہٹا کر ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔ بات ہو رہی تھی انتخابات کی 1990 ء کے انتخابات کو پیپلز پارٹی نے دھاندلی زدہ انتخابات قرار دیاتھا۔ بے نظیر بھٹو نے جو اپوزیشن لیڈر تھیں۔ ’ایک کتابچہ‘ انتخابات کر لیئے چوری کیا گیا ‘ لکھا تھا۔ 1993 ء کے انتخابات میں بے نظیر حکومت بنائی تو اُن کی حکومت کے خلاف مسلم لیگ)ن) تین ماہ بعد ملکی تحریک نجات ‘ شروع کر ادی تھی ۔بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے 2006 ء میں لندن میں یاک سمجھوتہ’’چارٹر آف ڈیومو کریسی‘‘ کے نام سے کیا تھا جس میں دونوں جماعتوں نے عہد کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کی حکومتوں کو آئینی مدت پوری کرنے دیدگی ۔ اور حکومت کو قبل از وقت ہٹانے کیلئے کوئی سازش نہیں کری گی۔ اس سمجھوتے کے تحت 2008 ء میں زرداری کی قیادت میں بننے والی پی پی پی کی حکومت نے 2015 تک اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی اور (ن) لیگ نے 2013 ء سے 2018 ء تک پانچ سال اقتدار میں مکمل کرلئے۔2018 ء میں عمران خان کی تحریک انصاف اقتدار میں آئی جس نے احتساب کا عمل شروع کیا اور آ پ قریبا! ساری اپوزیشن جماعتوں کے مرکزی لیڈروں کے خلاف کرپشن کے مقدمات چلنا شروع ہوگئے۔ اپریل 2022ء کو خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ چلتا کیا گیا۔ خان صاحب اُن کی اہلیہ اور پارٹی کے دوسرے لیڈران یا تو جیل میں یا پھر وہ پارٹی کو چھوڑ کر دوسری جماعتوں میں چلے گئے۔ تحریک انصاف کے بانی اور دوسرے لیڈر مشکلات کا شکا ر ہیں ۔ وہ ایک مشکل صورت حال میں الیکشن ہو رہے ہیں تحریک انصاف کا انتخابی نشان بھی اس سے لے لیا گیا ہے۔ اس کے اُمیدوار آزاد لڑ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کو لوگ بھاری اکثریت سے کامیاب کرائیں گے ۔ لیکن اس کا یہ دعویٰ بہت مشکل ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ طاقت ور حلقوں کے زیر عتاب جماعت کو لوگ ووٹ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ وہ انہیں جماعت کو ووٹ دیتے ہیں ’جو لاڈلی‘ سمجھی جاتی ہے۔ اس وقت لاڈلی جماعت مسلم لیگ (ن) ہے۔ 2018 ء میں تحریک انصاف ’’لاڈلی‘‘ تھی۔ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کی شفافیت پر لوگ سوالات اُٹھا رہے ہیں۔ دوسرے ممالک بھی تخفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایک غالب رائے یہ ہے کہ جو مخلوط حکومت ان انتخابات کے بعد بنے گی وہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی۔ ان حالات میں جب پاکستان ایک سنگین معاشی بحران کا شکار ہے ۔ ایک کمزور اور غیر مستحکم حکومت کس طرح ملک کو بحران سے نکال سکے گی اور کب پاکستان مزید مشکلات کا شکار نہیں ہوگا۔ یہی سوال پاکستان کے ہر شہری کو نہ صرف پریشان کر رہا ہے بلکہ اُسے اذیت میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیڈر بلاول بھٹو نے خبردار کیا اگر 8 فروری کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تو وہ اس قسم کا احتجاج کریں گے کہ مسلم لیگ (ن) عمران خان کے 2014 ء کے احتجاج کو بھول جائے گی ۔ پاکستان تحریک انصاف نے بھی وارننگ دی ہے کہ اگر کل کے انتخابات غیر آئینی ہوئے تو وہ ان کو تسلیم نہیں کرے گی اور ا ن کے خلاف احتجاج کرے گی ۔ پی پی پی اور تحریک انصاف نے آٹھ فروری کے الیکشن کے بعد کے منظر کی نشاندہی کر ائی ہے۔ دونوں جماعتیں ان انتخابات کے نتائج کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان انتخابات کے بعد فضا کیسی ہوگی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج کے انتخابات میں ملک میں اور استحکام پیدا ہوتا لیکن خدشہ یہ ہے کہ شاید ایسا نہ ہو اگر احتجاج کو طاقت کے ذریعہ کچلا گیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ دنیا بھر میں انتخابات کے نتائج عمومی طورپر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ دنیا کی معروف جمہوریتوں میں انتخابات عموماً شفاف ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان میں انتخابی تاریخ اتنی قابل رشک نہیں ہے۔ یہ الیکشن کے بعد افراتفری بھی پیداہوتی رہی ہے ۔ خدا کرے اس مرتبہ ایسا نہ ہو لیکن قرائن تو کچھ اور بتاتے ہیں۔