پاکستان میں اس سے پہلے بھی انتخابات کے نتائج کو کبھی خوشی دلی سے تسلیم نہیں کیا گیا۔ انتخابات شفاف شاید کبھی نہیں ہوئے ۔1970ء کے انتخابات کو صاف شفاف قرار دیا جاتا ہے لیکن ان کے نتیجے میںملک ہی دولخت ہوگیا تھا۔ 1977 ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو نے دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی خاطر ان انتخابات کو مشکوک بنا دیا تھا۔ مارچ1977ء کے قومی اسمبلی کے انتخابات متنازعہ ہوگئے اور اپوزیشن کے اتحاد نے اس قدر موثر احتجاجی تحریک چلائی کہ پی پی پی کی حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ اس تحریک کو کامیاب بنانے میں غیر ملکی اور کچھ غیر سیاسی عناصر نے بھی اپنا کردار اد اکیاتھا۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات تھے۔ جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے مسلم لیگ بنائی اور محمد خان جونیجو کو سندھ سے وزیر اعظم بنا دیا۔ لیکن اپنے ہی بنائے وزیراعظم کو بھی جنرل ضیاء الحق نے اُس کی جمہوریت نواز پالیسیوں کا باعث برداشت نہ کیا اور 29 مئی 1988 ء کو جونیجو حکومت توڑ کر ایک مرتبہ پھر غیر جماعتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن قدرت نے جنرل ضیا ء الحق کو دوبارہ غیر جماعتی انتخابات کرانے کا موقع نہ دیا۔ 1988ء میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے۔ بے نظیر کو اکثریت مل گئی لیکن بے نظیر کو اسٹیبلشمنٹ کے بعض عناصر نے سیکیورٹی رسک قرار دیا۔ پنجاب میں پی پی پی کی اکثریت نہیں بننے دی گئی۔ بے نظیر کو اٹھارہ ماہ کے اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ 1990 ء میں انتخابات کراکے نواز شریف کو لایا گیا۔ 1990 ء کے انتخابات کو بے نظیر بھٹو اور پی پی پی نے تسلیم نہیں کیا۔ ان انتخابات کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر پی پی پی اور دوسری جماعتوں نے تحریک چلائی ۔ 1993 ء میں نواز شریف کو بھی آرٹیکل 58 (2) بی کے تحت فارغ کردیا گیا۔ ایک مرتبہ پھر بے نظیر کو حکومت دی گئی لیکن 1996 ء کے آخر میں اس حکومت کو بھی ڈس مس کر دیا گیا۔ 1997 ء میں انتخابات ہوئے جنہیں بے نظیر نے تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان میں انتخابات کے نتائج ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں۔ لیکن آٹھ فروری کے انتخابات نے تو ملک میں عجب و غریب صورت حال پیدا کر دی ہے۔ جو جماعتیں جیتی ہیں اور جو ہا ر گئی ہیں وہ بھی الزام لگا رہی ہیں کہ انتخابات میں کھلم کھلا دھاندلی ہوئی ہے۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سٹرکوں پر مظاہرے ہورہے ہیں۔الیکشن کمیشن ابھی تک قابل اطمینان وضاحت نہیں دے سکا کہ انتخابات فیئر اور فری ہوئے ہیں۔ یورپی یونین ، برطانیہ اور کئی عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان انتخابات کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان انتخابات میں ہونے والی مبینہ بے قاعدگیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا ہے۔ جن جماعتوں نے اکثریت حاصل کی ہے وہ حکومت سازی میں بھی کوئی پیش رفت نہیں کر پائیں۔ مسلم لیگ(ن) کو پنجاب اور پی پی پی کو سندھ میں واضح اکثریت مل گئی ہے۔ وفاقی حکومت بنانے کیلئے کئی جاعتوں کو مل کر وفاق میں حکومت بنانا پڑے گی۔مولانا فضل الرحمان نے جو انٹرویو دئیے ہیں، اُن سے بھی ان انتخابات کے بارے میں شبہات کا اضافہ ہو ہے۔وفاقی حکومت بنانے کیلئے سودے بازی جاری ہے۔ ابھی کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے حیران کر دیا ہے ۔ اس طرح کا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ایک سینئر بیوور کریٹ نے انتخابات میں ٹھپے لگا کر ہار ہوئے اُمیدواروں کو جتوانے کا اعتراف کر رہاہو۔ کمشنر صاحب کی پریس کانفرنس نے تو سنسنی پھیلا دی ہے۔ ماتحت افسروں نے کمشنر کی پریس کانفرنس اور الزامات کی تردید کی ہے۔ کمشنر راولپنڈی نے انتخابات و دھاندلی کا ذمہ دار چیف الیکشن کمشنر اور چیف جسٹس کو بھی ٹھہرایا ہے۔ چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کے عوام یہ اُمید لگائے بیٹھے تھے کہ خدا خدا کر کے آٹھ فروری کو الیکشن ہوگئے ہیں اور ملک میں استحکام آئے گا۔ پے در پے ایسے واقعات ہورہے ہیں جن سے آٹھ فروری کے انتخابات کی ساکھ تباہ ہوگئی ہے۔ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ ملک میں ایمرجنسی لگ سکتی ہے۔ پاکستان کی معاشی صورت حال دگر گوں ہے۔ افراط زرکا ناقابل برداشت بوجھ پاکستانی کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ رواں مالی سال میں 27 ارب ڈالر بیرونی قرضوں پر سودکی مد میں ادا کرنا ہے۔ ابھی نئی حکومت بنی نہیں ہے اور گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ پاکستان کے غریب لوگ پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ کے نیچے کراہ رہے تھے ۔اُن پر اب مزید بوجھ ڈالا جائے گا ۔ کسی ایک جماعت نے ملک کے سنگین معاشی مسائل کے حل کیلئے کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔ اقتدار کے حصول اور عہدوں کی بندر بانٹ پر ہر طرح ڈیل ہو رہی ہے ۔ ان حالات میں تو سیاسی جماعتوں کو ایک مشترکہ ایجنڈاپنا نا چاہیے اور کمر کس کے ملک کو قرضوں کے پہاڑ تلے دبنے سے بچانا چاہیے اور یہ بتانا چاہیے کہ عوام کو کس طرح ریلیف مل سکتا ہے۔ اس ضمن میں کوئی بات سامنے نہیں آرہی ہے۔ اُوپر سے انتخابات کی کریڈیبلٹی پر بھی سوال اُٹھ رہے ہیں۔ قرضے دینے والے غیر ملکی ادارے اور ملک پو چھیں گے کہ جو حکومت پاکستان میں بن رہی ہے اس کی ساکھ کیا ہے اور کیا وہ ملک کو معاشی بحران سے نکال سکتی ہے۔ معاشی بحران سے نکالنے کیلئے سیاسی رہنما چارٹر آف اکانومی کی بات کر رہے ہیں لیکن کوئی بھی لیڈر اتنا قدکاٹھ نہیں رکھتاکہ وہ آگے بڑھ کر اس چارٹر آف اکانومی پر سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر سکے۔ حالت تو یہ ہے کہ ساری جماعتیں ایک دوسرے کو دھاندلی کا ذمہ داری قرار دے رہے ہیں۔ اس ماحول میں پاکستان کے عوام پریشان اور حیران ہیں کہ انہوںنے جس سیاسی استحکام اور اپنے بہتر مستقبل کیلئے ووٹ ڈالے تھے اُن کا کیا بنا ۔ ملک تو ایک نئے پریشان کن انتشار کی زد میں آگیا ہے۔ انتخابات کی مانیٹرنگ کرانے والے ادارے فافن نے تجویز دی ہے کہ الیکشن کمیشن عام انتخابات کا آڈٹ کرائے۔ تمام متنازعہ حلقوں میں اُمیدواروں اور اور نیوٹرل مبصرین کو بلا کر اُن کے سامنے ووٹ گنے جائیں اور جو نتیجہ ہو اس کا اعلان کرایاجائے۔ یہ اچھی تجویز ہے اس پر دیانت داری سے عمل ہوجائے کہ کافی حد تک بحران ختم ہوسکتا ہے۔