ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہمیں کبھی کبھی چیزوں کو سامنے کی بجائے سر جھکا کے دونوں ٹانگوں کے درمیان سے یا سَر کے بل کھڑے ہو کے بھی دیکھنا چاہیے، اس سے نتائج اور حقائق بہت مختلف اور موافق بھی ہو سکتے ہیں۔ بعض میڈیکل ڈاکٹروں کو بھی آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ ماحول کی یکسانیت (Home sickness) کا شکار مریضوں کو تبدیلیِ آب و ہوا کے لیے مختلف علاقوں میں جانے کے مفید مشوروں سے نوازتے ہیں۔ بعض سیاست دانوں سے متعلق بھی شنید ہے کہ ان کو جب گھر یا اسمبلی والے ماحول سے بچا کے چند دن کے لیے کسی حوصلہ افزا مقام پر رکھا جاتا ہے تو واپسی پر اُن کے موڈ، مزاج اور خیالات میں اچھا خاصا تغیر اور خوشگواریت پائی جاتی ہے۔ ہم نے بھی ان تینوں طرح کی مشاورت، مصاحبت اور مفاہمت کو جمع تفریق کر تے ہوئے نیز قومی مزاج اور ملکی کشاکش کی یک رُخی تصویر سے اُکتا کر ان حالات و واقعات کو زاویۂ دیگر سے دیکھنے کا قصد کیا تو پہلی نظر ہی میں حیرت اور اجنبیت کے مارے ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔ اس زاویۂ منفردہ سے ہماری پہلی نظر تو ان چَینلوں اور صحافیوں پر پڑی تو ہم حیرت کے سمندر میں ڈوبتے ڈوبتے بچے، کہ جن ’شرفا‘ پہ لفافوں اور زرد صحافت کا الزام لگاتے لگاتے ہم جیسوں کی زبان سُوکھ چلی تھی، ان صحافیوں کے ہاتھوں میں تسبیاں، ماتھے پہ محرابیں، چہروں پہ نُور اور چَینلوں پہ چڑھے تازہ موتیے کے ہار دیکھ کے اپنے سابقہ رویے پہ بہت ندامت ہوئی۔ اسی پشیمانی کے عالم میں اسمبلی کا رُخ کیا، جس کا کوئی نہایت اہم اجلاس ( دیدہ وَر جانتے ہیں کہ ایک سال سے اس اسمبلی کا ہر اجلاس اہم سے اہم ہی ہوتا چلا گیا ہے) ابھی ابھی برخاست ہوا تھا۔ پچاسی میں سے پچھتر اَسّی وزیر تو قوم کا قیمتی وقت ضائع کیے بغیر نوے پچانوے کی رفتار سے اپنی مقدس گاہوں کو لوٹ گئے۔ جو کسی وجہ سے رُک گئے ان میں ہم نے دیکھا کہ وزیرِ اعظم کے چہرے پر الوہی مسکراہٹ، چال میں بلا کا اعتماد، چیخ چیخ کے ان کی حقداری کا اعلان کر رہا تھا۔ ان کے ساتھ جو ملٹری سیکرٹری تھا، اس کی وردی پہ چاند ستارے ٹانکے ہوئے تھے۔ بات کرتے ہوئے اسحاق ڈار کے منھ سے پھول (جنھیں عقیدت سے دیکھنے پر ڈالر بھی سمجھا جا سکتا تھا) برس رہے تھے۔ رانا ثنا اللہ کے لہجے میں صوفیوں، سادھوؤں کی سی مستی تھی۔ خواجہ آصف جہاں سے گزرتے صداقت اور دیانت سے راستہ یوں روشن ہوتا جاتا کہ آنکھیں چندھیا جاتیں۔ بلاول بھٹو کے ساتھ کئی ملکوں کے وزرائے خارجہ چلتے آ رہے تھے، جو اُن کے سامنے بونے بلکہ ڈراؤنے نظر آ رہے تھے۔ مولانا فضل الرحمن کے اقوال سے ایسی جگ مگ ہو رہی تھی کہ لگتا تھا سورج، چاند، ستارے یہاں نکلنے کی خواہ مخواہ غلطی کربیٹھتے ہیں۔ یہ سارے مناظر دیکھ کے ہماری تو آنکھیں کھل گئیں۔ اسی زاویۂ معکوس میں جب ہم نے ستر اسی فیصد کا دعویٰ کرنے والی اپوزیشن پہ نظر کی توقدموں کے نیچے سے زمین پھسلتے پھسلتے بچی۔ ہم نے دیکھا کہ کئی لوگوں کے ہاتھ پاؤں سے فساد کی جڑیں پھوٹ رہی تھیں۔ تھوڑا سا غور کیا تو محسوس ہوا کہ: جو بھی جرم ہے خان کا ہے سب کیا دَھرا عمران کا ہے اس کے بعد تو اس مقبول لیڈر کی چالاکیاں ہم پہ ایک ایک کر کے کھلتی چلی گئیں کہ پہلے تو اس شخص نے ملی بھگت سے اٹھارہ کے الیکشن میں کم سیٹیں لیں، حالانکہ تھوڑی سی تگ و دو سے بھاری مینڈیٹ بھی مل سکتا تھا لیکن اس کے بعد چونکہ ن، پ کی طرح بڑے بڑے کام کرنے پڑتے ، موٹروے، میٹرو، اورنج ٹرینیں چلانا پڑتیں، ہر گھر سے تھانیدار، تحصیل دار اور ہر محکمے میں ’ہنرمند‘ بھرتی کرنا پڑتے، بجلی کی کھپت پوری کرنے کے لیے رینٹل پاور کھڑے کرنے پڑتے، یہ سب کچھ کرنے کے لیے حوصلے اور ہمت کی ضرورت تھی، اسی لیے اس نے اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کر کے گزارے لائق سیٹوں پہ اکتفا کی۔ دوسری حرکت اس نے یہ کی کہ بیوروکریسی کے اچھے بھلے خوشحال گھرانوں کو کنگلا کر کے رکھ دیا۔ خالی تنخواہ بھی بھلا کوئی چیز ہوتی ہے؟ آخر بیوی بچوں، رشتوں داروں کو منھ دکھانا ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف سے ہی کچھ سیکھ لیتا کہ کیسے افسروں کی دنیاوی اور محکمانہ ترقیاں ہوتی ہیں۔ تیسرا بلنڈر یہ کہ اپنے ہی منتخب ممبرانِ اسمبلی کو الیکشن کے خرچے پورے کرنے کا ایک بھی نادر موقع فراہم نہ کیا، نہ سرکاری حج عمرے، نہ باہر کے دورے، اور کچھ نہیں تو سو ڈیڑھ سو وزیر بنانا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کام تھا، محکمہ بعد میں بنا لیتے لیکن اسے تو لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھے بغیر بس ریاستِ مدینہ بنانے کی پڑی تھی۔ قومی خزانے میں بائیس ارب ڈالر جمع کرنے کا ہوکا تھا۔ حاجت مندوں نے اس کی روز روز کی اخلاقیات اور کنجوسی سے تنگ آ کے بسکٹ بچاتے بنی گالہ کو چھوڑ کر، ہُن برساتے سندھ ہاؤس میں قیام کرنا مناسب سمجھا۔ ابنِ انشا نے سچ ہی کہا تھا: جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کرے سب سے بڑا ظلم تو اس نے یہ کیا کہ برِ صغیر کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا، جہاں غلامی کی خُو لوگوں کی رگ رگ میں سرایت کیے ہوئے ہے ۔ معروف مزاح نگار شفیق الرحمن نے ’تزکِ نادری جدید‘ میں لکھا تھا کہ ہر طرح کے آقاؤں سے حکومت کرانا یہاں کے لوگوں کو اس قدر مرغوب ہے کہ انھوں نے تو خاندانِ غلاماں سے بھی حکومت کرائی۔ اسی روایت کے تسلسل میں یہاں اچھے بھلے امیر کبیر خاندانوں کے شہزادے، شہزادیاں ’عالم دوبارہ نیست‘ کا وِرد کرتے باری باری حکومتوں کے مزے لے رہے تھے، دیگر شعبوں میں بھی کوئی بڑے عہدے سے ریٹائر ہوتا تو ان لوگوں کی زندگیوں میں دخل دیے بغیر چپکے سے کچھ سلامیاں شلامیاں لے کر امجد اسلام امجد کے بقول ’کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رک کے تمھیں صدائیں دوں گا‘ کے مصداق، جا کے آباد ہو جاتا۔ اللہ اللہ خیر سَلّا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی تھی۔ایسے میں ان گرے پڑے دو وقت کی روٹی کے لیے تگ و دَو کرتے، آٹے، پٹرول والی قطاروں میں لگے، لوگوں کو بھلا پناما شناما،ایون فیلڈ،منی لانڈرنگ وغیرہ جیسے بڑے جھنجھٹوں میں الجھانے کی اور بلا ضرورت شعور دلانے کی ضرورت کیا تھی؟ اگر دو چار سال کچھ حق داران موج میلہ کر لیں گے تو کون سی قیامت آئی جاتی ہے؟ مَیں نے سنا ہے کہ ابھی تو اس کے حواری اس حساس ملکی معاملے کی طرف بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ ’جناح ہاؤس‘ محض کور کمانڈر کا گھر ہی تو نہیں تھا بلکہ یہ تو پورا ملک ہی جناح کا گھر ہے، آخر اس کی مسلسل توڑ پھوڑ اور لامحدود لُوٹ مار کا حساب کون لے گا؟ اسلم کولسری نے ایسے حالات سے بچنے کے لیے کتنی بر وقت دعا سُجھائی تھی: خواہ مخواہ کا مشیر مر جائے کاش میرا ضمیر مر جائے