وزیراعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ مجھے شکایت نہ کریں کہ فلاں رشوت مانگ رہا ہے،رشوت مانگنے والے افسر کے سر پر اینٹ مارو اور میرا نام لو،عوام رشوت مانگنے والے کا سر پھاڑ دیں۔عوام غیرت کریں اور رشوت خور کو موقع پر سزا دیں۔ رشوت مانگنے والے کے سر پر اینٹ مار کر اس کے بیٹے کو کہو آپ کے والد کو جہنم سے بچایا ہے ۔ ہم نے تو یہی سنا اور پڑھا تھا کہ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے۔یہ کیسا سالارہے جو اپنی ہی سپاہ کو مارنے کی بات کررہا ہے۔دنیا کا کوئی بھی قانون اور مہذب معاشرہ آپ کو خود سے منصف بننے اور قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں جھوٹ اور مکروفریب اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اپنے معمولی فائدے کیلئے بھی ہم جھوٹ کا سہارا لیکر اگلے بندے کی زندگی بھر کی کمائی عزت و کامیابی مشکوک اور تباہ و برباد کردیتے ہیں۔آئے روز کے واقعات ہیں کہ ہم ذاتی رنجش نکالنے کیلئے توہین رسالت و توہین مذہب کا نام لیکر مخالفین کی نسلیں تباہ کردیتے ہیں۔ دفاتر میں باس کی بات نہ ماننے والی خوبصورت ماتحت خاتون کہ یہ کہہ کہ ڈرایا اور کمزور کیا جاتا ہے کہ میری بات مان لو ورنہ تمہیں نوکری سے نکال دوں گا ،چوری کے الزام میں ذلیل و رسوا کردوں گا۔وہیں ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ پیشہ ور منظم گینگ سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی سرکاری افسران، سیاستدانوں ،تاجروں اور معززین کو سنگین الزامات کی دھمکیاں لگاکر بلیک میل کرکے مالی فوائد حاصل کررہی ہوتی ہیں۔ناجائز کام سے انکاری افسران کے خلاف رشوت خوری کا الزام تو مشغلہ عام ہے۔اگر کوئی سرکاری آفیسر ناجائز کام سے انکار کردے یا ٹیکنیکلی مشکل کام کیلئے تھوڑا وقت مانگ لے تو باہر مشہور کردیتے ہیں کہ بڑا ہی کرپٹ افسر ہے ،کہتا ہے کہ رشوت دو کام لو ۔چلیں ابھی تک تو یہ سارے کام الزامات کی حد تک چل رہے تھے مگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواعلی امین گنڈاپور نے جس طرح سے عوام کو افسران کا سر پھاڑنے کی کھلی چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے اس کے بہت سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ بات صرف سرپھٹنے تک نہیں رکے گی ،سر میں زور سے آہنی راڈ کا وار کرنے سے افسر موقع پر جان کی بازی بھی ہار سکتا ہے یا دماغ جیسی نازک جگہ پر وار سے نیم پاگل ہوسکتا ہے ،کومے میں جاسکتا ہے۔اس اعلان کے بعد افسران کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں یا بلاخوف آزادانہ فیصلے کرسکیں گے۔اگر انصاف ایسے ہی ہونا ہے تو کیا ججز گھر چلے جائیں؟ایسا بیان سراسر زیادتی ،اختیارات سے تجاوزاور غیرزمہ دارانہ حرکت ہے۔کیا وزیر اعلیٰ ماردھاڑ اور فسادات کروانا چاہ رہے؟گزشتہ روز علی امین گنڈاپور نے ایک اور بیان داغ دیا کہ صدر پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے خلاف ڈیرہ اسماعیل خاں میں ایف آئی آر درج کرا کے انہیں گرفتار کرسکتے ہیں۔ علی امین گنڈاپور کے مذکورہ بیانات پر چیف جسٹس آف پاکستان سے ازخود نوٹس کی استدعاہے۔کرپٹ افسران کا احتساب ناگزیر لیکن قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ناکہ افسران کا گریبان عوام کے ہاتھوں میں دے کر۔ گزشتہ دس سال میں خیبرپختونخوا میں آپ کی جماعت کی حکومت تھی۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشل کی رپورٹس بھی یہی کہتی ہیں کہ آپ کی پارٹی کے دور اقتدار میں پاکستان کی تاریخ کی سب زیادہ کرپشن ہوئی۔اپنے دس سالہ دور اقتدار میں خیبرپختونخوا میں اینٹی کرپشن کو کھڈے لائن کیوں لگایا؟۔پنجاب میں محسن نقوی کی نگران حکومت میں ڈی جی اینٹی کرپشن سہیل ظفر چٹھہ اور انکی ٹیم نے دن رات محنت کرکے کرپشن کے خاتمے کیلئے قابل تعریف و تقلید اقدامات کیے۔کرپٹ افراد کے گرد گھیرا تنگ ہوا اور ان کو قانون کے دائرے میں رہ کر عدالتوں کی ذریعے سزائیں دلوائی گئیں نہ کہ علی امین گنڈا پور کی طرح افسران کا سر پھاڑنے کی کھلی چھٹی دی گئی۔ان اقدامات کے بعد پنجاب میں کرپشن کے واقعات میں واضح کمی ہوئی جس کی تصدیق عالمی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بھی کی۔شہباز شریف کو پنجاب کا سب سے کامیاب وزیراعلیٰ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔شہباز شریف کی کامیابی ،تاریخی ترقیاتی کاموں اور طرز حکمرانی کا زمانہ معترف ہے۔دوسرے صوبوں کی خواہش اور پکار ہوتی تھی کہ ہمیں شہباز شریف ادھار دے دو تاکہ یہاں بھی ترقی کا دور شروع ہوسکے۔صبح فجر سے لیکر رات گئے تک انتھک مصروف عمل شہباز شریف کی کامیابی کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ انکی منتخب کردہ بیوروکریٹ کی ٹیم کو کام کی مکمل آزادی ہوتی تھی۔انکی وزارت اعلیٰ میں ایم پی اے ،ایم این اے تو درکنار وزراء کی بھی جرات نہ ہوتی کہ خلاف میرٹ کسی کام کی سفارش کرسکیں۔مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ایک وزیر اپنے محکمے کے صوبائی سیکرٹری کو کہہ رہے تھے کہ اگر ہوسکے تو فلاں بندے کو ابلائج کردیں ۔جواب میں سیکرٹری کا کہنا تھا کہ سر آجائیں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے اکٹھے درخواست کرلیتے ہیں ۔شہباز شریف کا نام سنتے ہی وزیر نے کہا کہ میں اپنی سفارش واپس لیتا ہوں اور آپ بھی خدا کا واسطہ اس کا ذکر شہباز صاحب سے نا کریے گا۔حکومتیں اعتماد اور عزت دینے سے چلتی ہیں نہ کہ افسران کا سر پھاڑنے سے۔