ہمارے ارد گرد بہت سے واقعات رونما ہو رہے ہیں ، کچھ ہماری توجہ حاصل کر لیتے ہیں کچھ نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ختم ہو چکی ،مسلح افواج ، پولیس اور پاکستانی عوام نے جان اور مال کی قربانیاں دیں ۔اب اس جنگ کے اثرات کو سمیٹنے کا کام جاری ہے ۔کراچی میں بلوچ خاتون نے خود کو دہشت گردوں سے الگ کر لیا ، گلزار امام شمبے کی گرفتاری ایک زبردست آپریشن کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ تازہ واقعہ جماعت الاحرار اور ٹی ٹی پی سے منسلک اہم دہشتگرد کمانڈر سربکف مہمند کی ہلاکت ہے ۔ سکیورٹی اداروں نے دہشت گرد گروپوں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے ،چند روز قبل برادرم عامر رانا نے ٹی ٹی پی کے گروپوں کے انضمام پر تفصیلی روشنی ڈالی۔عامر رانا سکیورٹی امور کے ماہر ہیں ۔ ان سے تبادلہ خیال سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی ، نسلی اور علاقائی بنیاد پر مسلح کارروائیاں کرنے والے گروہ خود کو کمزور سمجھ رہے ہیں ، سکیورٹی اداروں کی مستعدی ، انٹیلی جنس نیٹ ورک کی فعالیت اور معلومات کے درست تجزیہ کی مدد سے تشدد پسند گروپوں کو بے بس کیا جا رہا ہے، کبھی کبھار وہ کوئی کارروائی کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تاہم اس سے فقط یہی احساس ہوتا ہے کہ ابھی ان کا وجود باقی ہے ۔ یہ کارروائیاں بھی اب مخصوص علاقوں میں ہوتی ہیں، جیسے منگل کے روز شمالی وزیرستان میں دیسی ساختہ بارودی سرنگ بچھا کر پاک فوج کے دو جوانوں کو شہید کیا گیا۔ بات سربکف مہمند کی موت کی ہو رہی تھی،دہشت گرد کمانڈر سربکف مہمند کی موت انتہائی پرسرار حالات میں ہوئی۔دہشت گرد گروپ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں ۔انہیں نئے لوگ نہیں مل رہے، پاکستانی سر زمیں پر ان کے ٹھکانے ختم ہو رہے ہیں۔کئی واقعات میں دہشت گرد ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے ہیں ۔ذرائع کے مطابق دہشت گرد تنظیموں کے اندرونی اختلافات انتہائی شدت اختیار کر چکے ہیں اور قوی امکان ہے کہ سربکف کی موت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس موت کی وجہ دہشت گرد گروپوں کے اندرونی اختلافات میں تلاش کی جا سکتی ہے لیکن یہ بات فراموش نہیں کی جا سکتی کہ یہ اختلاف سکیورٹی اداروں کے مسلسل تعاقب اور دباو سے پیدا ہوا ہے ۔ سوشل میڈیا اب ایسی خبروں اور پروپیگنڈہ کے لئے استعمال ہو رہا ہے جو مین سٹریم میڈیا پر نظر نہیں آتیں ۔تجزیہ کی صلاحیت بروئے کار لائی جا سکے تو حقائق اور پروپیگنڈہ کو الگ الگ کر کے حقیقت تک پہنچا جا سکتا ہے ۔پچھلے دنوں دہشت گردوں کے زیر استعمال سوشل میڈیا پر سربکف مہمند کو زہر دیے جانے کی اطلاعات گردش کر رہی تھیں۔اس سے چند ہفتے قبل بھی ایک دہشت گرد کمانڈر کی اسی طرح ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئیں ۔سربکف مہمند ایک طویل عرصے سے دہشت گرد کارروائیوں میں مشغول تھا۔یہ سوشل میڈیا پر پاکستان کی سالمیت پر مذموم مہم چلاتا ، لوگوں کو بھڑکاتا ۔سربکف نے غازی میڈیا نیٹ ورک کے نام سے اپنا نیٹ ورک بنا رکھا تھا ۔وہ اس سوشل میڈیا نیٹ ورک پر پاکستانکے خلاف زہریلا پروپیگنڈا پھیلا رہا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنے علاقے میں سربکف جھوٹ اور دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ لوگ اس سے خوفزدہ رہتے لیکن امن پسند لوگاس کی سرگرمیوں کو ئی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔سربکف اور اس کے ساتھی لوگوں پر ستم ڈھاتے ،بھتہ خوری اور بد اخلاقی کی وجہ سے اپنے ہی ساتھی دہشت گردوں سے شدید اختلافات کی خبریں موسول ہوتی رہی ہیں ۔ اختلافات کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سربکف کا تعلق جماعت الاحرار سے تھا جو کچھ عرصہ پہلے ٹی ٹی پی میں ضم ہو گئی تھی۔ضم ہونے کا حکم شاید کسی بیرونی سر پرست کا ہے جو دہشت گردوں کی بکھری اور کمزور ہوتی قوت کو منظم کر کے پاکستان کے لئے خطرہ بنانے کا متمنی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق ضم ہونے کے باوجود دونوں گروپوں کے درمیان اختلافات کم نہ ہو سکے ، بنیادی وجہ اغوا برائے تاوان کی آمدن اور بچوں کے استحصال کے لئے علاقے کی تقسیم تھا ۔سکیورٹی اداروں کا کہنا ہے کہ سربکف مہمند پشاور پولیس لائنز حملہ سمیت دہشتگردی کی متعدد کارروائیوں کا ماسٹر مائنڈ تھاپولیس لائنز حملے میں ایک سو سے زاید لوگ جاں بحق ہوئے تھے ۔اس واقعے کے بعد وہ نئے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا تھا ۔ پولیس اہلکاروںکو نماز کی حالت میں شہید کروانے والا اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ دہشت گرد کمانڈر نے اپنے حالیہ بیان میں فوجی تنصیبات پر حملوں کی حمایت کی تھی۔گزشتہ کچھ عرصہ سے سربکف مہمند خود کو نورولی محسود کا جانشین ظاہر کررہا تھا۔ عسکریت پسند گروپوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ سربکف مہمند کو مفتی نورولی محسود گروپ نے زہر دیا۔کچھ عرصہ قبل جماعت الاحرار کے مارے جانے والے کمانڈر عبدالولی کے بارے میں یہی خبر ہے کہ اسے بھی نور ولی محسود نے مروایا تھا۔ صورتحال میں پراسراریت موجود ہے لیکن ایک بات واضح ہو رہی ہے کہ دہشت گرد گروپوں میں پھیلتے داخلی جھگڑے ان کے وجود اور سرگرمیوں کی نئی حیثیت کا تعین کر رہے ہیں۔ سکیورٹی ماہرین اس امر کی تصدیق کر رہے ہیں کہ دہشت گرد اپنے داخلی جھگڑوں اور بڑھتی ہوئی اموات سے شدید پریشان ہیں۔ سکیورٹی اداروں کی پیشقدمی انہیں تشویش کا شکار بنا رہی ہے۔مختلف محاذوں پر ناکامی نے بھی دہشت گردوں میں تنظیمی اختلافات پیدا کئے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیابی کی ایک وجہ بروقت انٹیلی جنس اور عوام کی جانب سے ان کے کارروائیوں پر اعتماد ہے۔ اس فضا میں ہونے والے کامیاب آپریشنوں نے دہشت گردوں پر زمین تنگ کر دی ہے۔ جنگیں عوامی تائید سے جیتی جاتی ہیں ۔ سیاسی حالات جو بھی ہوں ملک کے تحفظ اور سلامتی کے معاملے پر قوم ایک نظر آتی ہے۔