عشق نامہ شاہ حسین بنیادی طور پر ایک تحقیق ہے اور شاہ حسین کے موضوع کو فکری دیانت سے لکھنے کی سعی ہے۔عام طور پر آدمی لاکھ چاہے اپنے تعصب سے آزاد نہیں ہوتا۔اور جہاں دیکھتا ہے کہ اس کے ممدوح پر کوئی ضرب پڑنے کا احتمال ہے تو تاریخ اسطور مذہب معاشرے سے جواز کی ڈھال بھی میسر کرتا ہے۔مصنف نے موضوع پر تمام میسر مواد کا جائزہ لیا ہے اور اپنا نکتہ نظر بھی پیش کیا ہے۔یہ ضخیم کتاب اس موضوع پر لکھی ہوئی تمام تصانیف کو بحث کا موضوع بھی بناتی ہے اور تمام حقائق کو از سر نو خلق کرتی ہے۔شاہ حسین پنجابی شاعری کا بانی مبانی ہے اور وہ پہلا لوکل شاعر ہے۔ شاہ حسین کی شہرت اس کی شاعری سے زیادہ اس کے ایک لڑکے مادھو لال حسین سے عشق ہونے کی نسبت سے ہے۔اس کا ایک بدیہی نتیجہ یہ ہوا کہ قاری اس کی شاعری سے زیادہ اس کے مادھو لال سے تعلق پر فدا ہے۔یہ تعلق اس قدر دلچسپ اور رنگین ہے کہ شاہ حسین ہی مادھو لال حسین ہو گیا ہے۔ مصنف فرخ یار کے تھیسز کے مطابق شاہ حسین کا تصور تصوف صوفیائے خراسان کے تصوف سے ہی پیوند ہے۔تصوف کی دو دھارے ہیں۔ ایک وہ جہاں صوفیا فکر الہیات میں گم ہیں اور دوسرے وہ فکر الہیات سے زیادہ فکر ذات کے والہ و شیدا ہیں۔پہلے والے مذہب کے باغی نہیں دوسرے والے نے مذہب کے مین دھارے سے بغاوت کی اور ترک صوم و صلوۃ کیا۔ہمارے پاس اس کی پہلی مثال شاہ حسین اور دوسری بلھے شاہ ہے۔ایک دھارے کی نمائندہ مثال کشف المحجوب ہے اس میں پردے ہٹتے ہیں جبکہ دوسرے دھارے میں پردہ پوشی نہیں پردہ سے باہر آنے کی کوشش اور وضع ہے۔پہلے والا گروہ مذہب کی تبلیغ اور دوسرا مذہب کی الگ تشریح کا داعی ہے۔اسی موخر الذکر زاویہ نظر کو عشق نامہ شاہ حسین کا مصنف بے شرع تصوف کا نام دیتا ہے۔شاہ حسین کا تعلق اسی دوسرے گروہ سے ہے۔ جنوبی ایشیا میں شاہ حسین جس فکری رو کے بانیوں میں سے ہیں اسے ہند عجمی تصوف کہنا روا ہے۔بعض علما کے نزدیک تصوف عین اسلام کی شرع ہے اور بعض اسے مذہب کے مقابلے میں الگ فلسفیاتی نظام مانتے ہیں۔فرخ یار نے انتہائی عرق ریزی سے اس کی ابتدا اور اس کے مشمولات کی جانکاری بھی دی ہے اور صدی بہ صدی اس کی فکری تاریخ بھی قلم بند کی ہے۔عشق نامہ شاہ حسین کو چار حصوں تصوف ملامت سنگیت اور کلام میں تقسیم کیا گیا ہے۔شاہ حسین نے پنجابی زبان میں کافی کو متعارف کروایا اور اس میں تصوف کے مضامین ادا کیا۔میں نے پہلی دفعہ شاہ حسین کا کل کلام اس کے درست متن کے ساتھ پڑھا ہے۔مصنف نے شاہ حسین کے کلام کے متن کی درستی بھی کی ہے اور اب تک متن پر کیے گئے کام کا محاکمہ بھی کیا ہے۔پنجابی زبان میں ایسا وقیع کام بڑی مدت کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔اس کتاب نے پنجابی فکر کے بانجھ پن کو دور کیا ہے اور نئی بحث کے در وا کیے ہیں۔ایسا کام حکومتی سطح پر ہوتا ہے لیکن جہاں سارے ادارے اپنی اصل سے غافل ہیں وہاں ادبی اداروں سے کیا گلہ۔ فرخ یار کا تخلیقی مزاج عراق ِعجم سے اٹھا ہے کہ اس کا ننھیال ہرات ہے اور کتاب کا انتساب بھی اپنے ننھیالی بزرگ مرزا جان محمد افغان کے نام ہے۔اس کا تخلیقی نظام نہ صرف اس معاشرے کی جدلیات پر بات کرتا ہے بلکہ وہ جنوبی ایشیا کے اس مزاج کی بھی تفہیم کرتا ہے جو یہاں صدیوں سے پرورش پا رہا ہے۔اس کی ذات وہ خاموش اور بوجھل رات ہے جو اسلامی فکر کی غیر روایتی جوت سے جگمگا اٹھی ہے۔شاہ حسین اس کی تہذیبی فکر کا بنیادی استعارہ ہے جس نے پنجاب کو فکری طور پر عراق ِعجم کے مذاق سے جوڑ دیا ہے۔ صوفی روایت نے کس طرح اپنا الگ اسلوب ِحیات وضع کیا اس کا خاص موضوع اور دلچسپی کا محرک ہے۔مصنف کا ننھیال بھی خراسان ہے جس کی وجہ سے اس کا تخلیقی والہانہ پن عین تصوف والا ہے۔ شاہ حسین کی کافیاں معشوق کی بارگاہ عالی میں مناجاتیں ہیں جس میں ہوش سے بیگانہ ہو کر عرض گزارتا ہے یہی آہنگ ٹیگور کی گیتانجلی کا ہے۔دونوں کا انداز ایک سا ہے دونوں محبوب کے در پر اس کی ایک جھلک کے سوالی اور متمنی ہیں۔ان کافیوں کو محض مادھو لال حسین کے حضور عرضداشت سمجھنا اس کی غلط تفہیم ہے۔بابا فرید کے بعد شعر پنجاب مذہب کے پاس آ گیا تھا اور چار پانچ صدیوں بعد شاہ حسین ایک انحراف کی مثال بن کر سامنے آئے۔ عشق نامہ میں شاہ حسین کے کل کلام کو درست متن اور اس میں ممکنہ ترامیم یا اضافوں کو بار دگر دیکھا گیا ہے اور آسان رواں اردو ترجمے کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔جس دقت نظری کا یہ کام تھا اس پر مصنف نے پندرہ سال غور کیا اس کا مطالعہ کیا۔کتاب کا اسلوب یعنی فاضل مصنف کا اسلوب تحریر بھی اپنا ہے اور بیان کا سیاق و سباق بھی اپنا۔شاہ حسین پر یہ ایک ریفرنس بک ہے اور تصوف کی بحث اور اس کی ابتدا، عروج اور خصوصیات کے حوالے سے اسے شیخ محمد اکرام کی آب کوثر، موج کوثر اور رود کوثر کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔تصوف سے متعلقہ موضوعات فتوت ملامت ترک شرع کے بارے میں طویل باب اس کتاب کا اہم حصہ ہے۔اسی بحث سے شاہ حسین کو دریافت اور سمجھا گیا ہے۔اس بحث میں پنجاب میں دوسری یلغاروں کے ساتھ مذہب کی یلغار کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس خطے میں سناتن دھرم، بدھ مت سے اسلام اس کی مسلکی نہاجیات اور سکھ مت کے ظہور نے جس طرح یہاں کے رہنے والوں کو ذہنی خلفشار میں اور نفسیاتی عوارض میں مبتلا کیا اس کی بنا پر ذہین آدمی کا زندہ رہنا دشوار تو ہونا اور انحراف کی کوئی شکل تو ظہور ہونی تھی۔ پنجاب میں مذاہب کی ایک دوسرے پر یہی یلغار اور تحویل ِدین کا تسلسل ایک انحراف کی شکل میں مجسم ہو کر شاہ حسین کے روپ میں ڈھل گیا تھا۔