اب کے کوئی نہیں ڈرنے والا حد سے گزرا ہے گزرنے والا ایک پرندا ہے مرے خوابوں کا آسمانوں سے اترنے والا اور پھر ایک خیال یہ بھی ہے کہ اب کے طوفان بھی رحمت ہو گاکہ سفینہ ہے ابھرنے والا‘۔ میں نے دیکھا ہے بہت دیر کے بعد کس قدر کام ہے کرنے والا۔ سچ تو یہی ہے کہ ہم منزل سے دور ہوتے جا رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہماری کوئی منزل ہے اور ہم اس تک پہنچنا چاہتے ہیں ہرگز نہیں۔میں تو اس منزل کی بات کر رہا ہوں کہ جو ہمارے بڑوں نے قائد کی قیادت میں حاصل کی تھی۔یعنی آزادی ہم آزاد ضرور ہیں اور وہ ہیں ہر قسم کی بندشوں اور پابندیوں سے ہم تو ٹریفک کے اشارے تک کا انتظار نہیں کر سکتے۔ آزاد ہیں کہ جس کی مرضی پگڑی اچھال دیں۔ بہتان باندھ دیں یا کچھ بھی جھوٹ اختراع کر لیں اور اب یہ سب کچھ ایک فن اور مہارت ٹھہری۔ کسی کی بات ادھر سے کاٹی اور کسی کی ادھر سے اور یوں کوئی تماشہ لگا دیا۔ کسی کی عزت پامال ہوتی ہے تو ہونے دو کسی کو کیا کہیں وہ جو رہنما تھے وہ گندی ویڈیوز بنا کر ریلیز کر رہے ہیں کہاں کوئی پردہ رہ گیا ہے ہمارا معتقدیں کا بھی حال کچھ کم نہیں کہ: میں ایسے بات سنتا ہوں کہ تو جھوٹا نہیں لگتا میں شرح صدر سے بتانا چاہتا ہوں کہ جو صدیوں کا نچوڑ محاورے بنے ہیں وہ یونہی نہیں بن گئے۔مثلاً اگر کہا گیا کہ جو بوئو گے وہی کاٹو گے تو سب دیکھتے آئے ہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ صرف بونے والا خود ہی نہیں کاٹتا اس کی نسل بھی وہی فصل کاٹتی ہے پھر یوں ہے کہ یہ بات محاورے کی شکل میں ہر زبان کے اندر موجود ہے۔ زبان کوئی بھی ہو انسان اور اس کی عادات خواہشات اور آرزوئیں تو وہی ہیں کہ یہ جلد باز نسیان کا بھی مارا ہوا ہے۔ جو کہتا ہے بھول جاتا ہے ہمارے لیڈران اس کے شاہد ہیں اب ترقی کے دور میں فرق یہ پڑا ہے کہ لوگ کسی کو بھولنے نہیں دیتے۔ میڈیا منافقت کو ایک ہی تصویر میں رکھ کر دو صورتوں میں دکھا دیتا ہے اس سے مگر ایک نقصان ہوا کہ لیڈر بے شرم اور ڈھیٹ ہو گیا ہے۔ کبھی وہ اپنے جھوٹ کو سیاسی بیان کہہ دیتا ہے تو کبھی ایسے ہی مذاق اور وہ یہ کبھی نہیں جان رہا ہوتا کہ مذاق تو وہ خود بن گیا ہے۔ ایک اور محاورہ دیکھیے کہ چوری لکھ دی وی تے ککھ دی وی۔پنجابی کا یہمحاورہ کتنا درست ہے میں ۔ کرپشن چھوٹی ہو یا میگا ہے تو کرپشن۔ ویسے میں سوچتا ہوں کہ لوگ بعض سے کرپشن کی توقع رکھتے تھے اور ایک آدھ سے نہیں یہی عمران خاں مارا گیا کہ عالمی سطح پر بھی ان کے بارے میں یہی تاثر تھا کہ وہ ڈیڈ لی آنسٹ ہے دور کیوں جائیں ہم نے خود کالم میں لکھا تھا کہ جن کا نام عمران خاں ہے وہ چاہے گا کرپشن نہیںکر سکے گا کہ اس کی کیمسٹری اور ہے مگر زمانے نے دیکھا کہ وہ گناہ بے لذت میں شریک ہو گیا۔ بہرحال مجھے ایک پی ٹی آئی سپورٹر کی بات اچھی لگی کہنے لگیں کہ ہو جاتا ہے، وہ انسان ہے غلطی ہو گئی۔ چلیے اس بحث کو چھوڑتے ہیں ہم اخلاقیات پر آتے ہیں خان صاحب کی دبنگ انٹری پھر لب و لہجہ کے سخت زبان بھی ٹرینڈ بن گئی اوپر سے نیچے آتے آتے گالیوں میں بدل گیا۔عدم برداشت اور غصہ ایک مرتبہ پھر دیکھیے کہ جو بویا وہ اب کاٹنا پڑ رہا ہے۔تاریخ بھی تو اپنے آپ کو دہراتی ہے مگر کس کو عقل آتی ہے کہ ہر کوئی خود کو عقل کل سمجھ بیٹھتا ہے خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا یہ قدرت کا فیصلہ ہے کہ جو اپنی ’میں‘ میں ہوتا ہے وہ ساری عمر ’میں‘ میں ہی پھرتا ہے اسی کو مارنے کی ضرورت ہے اگر ’میں‘ میں خود کی بات ہو تو معاملہ دوسرا ہے۔سب کو ایک یہ خوف کہ امریکہ ناراض نہ ہو جائے کاش ہم تھوڑا سا اللہ سے بھی ڈر جاتے مگر ہم بہت دلیر ہیں ویسے اصل خوف وہی ہے جو اللہ کا ہو اور طمع بھی وہی ہے جو اللہ سے رکھی جائے کسی نے کسی کو مہاتما کہا تو میں نے برجستہ کہا کہ وہ مہاتما نہیں مہا طمع ہے۔ یہ جو جنگ ہے اب ادیبوں شاعروں تک بھی پہنچ چکی ہے معروف شاعر جناب تاصف نے ہماری طرح کوئی کڑا سا قافیہ کوئی کڑی ردیف پر ایک استادانہ غزل کہہ دی اور پھر جاوید قاسم نے اس زمین سے نئی زمیں نکال کر ایک اور غزل جڑ دی جس کی ردیف بدل دی گئی خالد صاحب نے جواباً انتباہ کیا کہ یہ روش درست نہیں۔ بعض چیزیں نتھی ہو جاتی ہیں ایک زمانے میں نواز شریف کے ساتھ بریف کیس اٹیچ تھا ہر جگہ بریف کیس پہچ جاتا ایسے ہی زرداری صاحب کے ساتھ ٹین پرسنٹ لگ گیا حالانکہ وہ 50پرسنٹ پر بھی خوش نہیں ہوتے تھے: چیز ہوتی ہے اس کی جاناں نام سے جس کے پکاری جائے کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ یہ اشاریے اور ابتری ہے جو پورے معاشرے میں پھیل چکی ہے۔سیاست میں کلٹ آ گیا ہے یہ کلٹ سیاسی ہی نہیں مذہبی بھی موجود مگر سیاسی کلٹ بھی مذہب کو مہارت سے استعمال کر رہا ہے اب کے جنگ میں واقعتاً سب کچھ جائز دکھائی دیتا ہے کہ لڑنے والوں کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا اب ایک تھپڑ کا ٹرینڈ بنا دیا گیا ہے حالانکہ متاثرہ شخص کہہ رہا ہے ایسی تو کوئی بات سرے سے ہے ہی نہیں۔ تھپڑ کے پراپیگنڈا سے یہ ضرور نظر آ رہا ہے کہ پہلے سوشل میڈیا پر الفاظ کی جنگ تھی شاید اب ہاتھا پائی پر آ جائے گی ایک بات مجھے دلچسپ لگتی ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کیا سچ مچ سیاستدانوں پر مدار کرتی ہے ایک شعر: عمر گزری ہے دربدر اپنی ہم ہلے تھے ذرا ٹھکانے سے