فروری 1979 ء میں جب ایران میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تو ایران ایک مذہبی ریاست کی حیثیت سے اُبھرنا شروع ہوا ۔ شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا تختہ اُلٹا گیا جس کے بعدکہ شاہ ایران کو امریکہ اور مغربی ملکوں کی آشیر باد سے ایران سے بحفاظت نکال لیا گیا لیکن اُسے کوئی بھی ملک پناہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ وہ طیارہ جس میں شاہ ایران ان کی ملکہ اور خاندان کے افراد سوار تھے اڑتالیس گھنٹے تک فضا میں چکر لگاتا رہا۔ امریکہ سمیت کوئی مغربی ملک ایران کی انقلابی حکومت سے ٹکر لینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ امریکہ فرانس اور کچھ دوسرے ملکوں کے اصرار پر مصر کے صدرا نورالسادات نے شاہ ایران کے طیارے کو مصر میں اُترنے کی اجازت دی۔ ایک ہزار سال تک ایران پر حکمرانی کرنے والے خاندان کے آخری حکمران نے مصر میں پناہ لے لی اور وہیں وہ دفن بھی ہوا۔ اُن کی ملکہ اور بچے فرانس چلے گئے۔ ایران کی اسلامی حکومت کے حامیوں نے ایران میں امریکی سفارت خانہ پر قبضہ کر لیا تھا اور درجنوں امریکی سفارت کار وںکو یرغمال بنالیا تھا۔ ایران کا انقلاب شاہ ایران اور اس کے سب سے بڑے سرپرست امریکہ کے خلاف تھا۔ شاہ ایران کو ایشیا میں امریکہ کا پولیس مین قرار دیا جاتاتھا۔ایرانی قوم پرست محمد مصدق پچاس کی دہائی میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا تختہ اُلٹا تھا۔ مصدق نے امریکہ اور برطانیہ کے زیر قبضہ ایران کی تیل کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا ۔ امریکہ اور برطانیہ کی چھٹی کرا دی ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد امریکی سی آئی اے نے ایک منصوبہ کے تحت محمد مصدق کی حکومت کو فارغ کرکے شاہ ایران کو دوبارہ تحت پر بٹھا دیا۔ اُس وقت سے فروری1979 تک شاہ ایران امریکہ کے قریبی حلیف کے طورپر امریکی پالیسیوں کی حمایت کرتاریا۔اس کی حکومت کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل رہی۔ امریکی سفارت کاروں کو ایرانی انقلابیوں جن میں نوجوان طلباء سر فہرست تھے ، نے اغوا کیا تھا۔ امریکہ کو اندیشہ تھا کہ انقلابی امریکی سفارت کاروں کو ماردیں گے ۔ امریکی صدر جمی کارٹر نے52 باون امریکی سفارت کاروں کی رہائی کیلئے ایک فوجی اپریشن ’’آپریشن ایگل کلا‘‘Operation Eagle Claw کے نام سے کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ امریکہ نے پاکستان کے اُس وقت کے صدر ضیاء الحق سے رابطہ کرکے اُن سے ’’اپریشن ایگل کلا‘‘ کیلئے مدد طلب کی۔ اس آپریشن میں پاکستان کے سمندری علاقے میں امریکی طیارہ بردار جہاز کو استعمال کرکے ہیلی کاپڑوں کے ذریعے امریکی کمانڈوز کو تہران میں امریکی سفارت خانہ میں اُتار کر امریکی یرغمالیوں کو رہا کرانا تھا۔ پاکستان اُس وقت افغانستان میں سویت یونین کی فوج کے خلاف مجاہدین کے ذریعہ ہونے والے امریکی جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اس کے باوجود پاکستان نے ایران کے خلاف امریکہ کی مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس کے بعد امریکہ کو یہ آپریشن کسی دوسری جگہ سے کرنا پڑا۔ جو اسے بہت مہنگا پڑا ۔’’آپریشن ایگل کلا‘‘ کے دوران دو امریکی ہیلی کاپڑ فضاء میں ایک دوسرے سے ٹکرا گئے تھے اور یہ آپریشن ناکام رہا تھا۔ امام خمینی نے اسے اللہ کی مدد قرار دیا تھا۔ راقم کو اس آپریشن کے بارے میں 1980 میں پاک بحریہ کے سربراہ ایڈمرل کرامت رحمان نیازی نے ایک نٹرویو میں بتایا تھاکہ کاکس طرح پاک بحریہ نے اس آپریشن کی مخالفت کی تھی۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد ایران کے بعض مسلح گروپوں نے پاکستان میں اسلامی انقلاب برآمد کرنے کی کوشش کی تھی۔ فدائین خلق کے ایک گروپ نے سمندری راستے میں پاکستان میں داخل ہو کر پاکستان میں ایک مذہبی فرقہ کے ذریعہ ایران کی طرز کا انقلاب لانے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں نے فدائین خلق کے اس گروپ کو گرفتار کرلیا تھا۔ اس بارے میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفینیٹ جنرل حمید گل نے اس خاکسار کو ایک ’’آ ف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو میں بتایا تھا۔ پاکستان میں انقلاب ایکسپورٹ کرنے کی اس کوشش پر پاکستان نے اس وقت ایران سے احتجاج بھی کیا تھا۔ جس پر امام خمینی نے پاکستانی قیادت کو یقین دہانی کرائی تھی ایران کی حکومت اس طرح کی کوشش کی حمایت نہیں کرتی ۔ بعد میںبھی ایران پاکستان میں ہونے والے کئی واقعات میں ملوث رہا۔ لیکن پاکستان نے اس بارے میں اپنے آپ کو احتجاج تک محدود رکھا۔ ایران کے علاقہ سیستان جسے ایرانی بلوچستان بھی کہا جاتاہے، میں بلوچستان لبریشن آرمی اور دوسرے پاکستان مخالف گروپوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں۔ جن کے بارے میں پاکستان وقتاً فوقتاً ایران کو اطلاعات فراہم کرتا رہا ہے اور ان گروپوں کے خلاف ایکشن کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ لیکن ایران نے ان گروپوں کے خلاف کاروائی نہیں کی ۔ ایک دور میں بھارت اور ایران میں پاکستان مخالف بیانیہ مشترک تھا۔ انٹیلی جنس ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بھارتی نیول آفیسرکلبھوشن یادیوجو بلوچستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کا ایک معمار تھا۔ ایران سے پاکستا ن میں داخل ہوا تھا۔ کئی اور واقعات میں جن سے ظاہر ہوتاہے کہ ایرا ن کی سرزمین پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ پاکستان نے ان تمام واقعات پر صبر سے کام لیا۔ اچانک ایران کی طرف سے چند دن پہلے پنجگور کے علاقے پر مزائل چلاکرپاک ایران تعلقات کو زمین بوس کر دیا۔ ایسے وقت میںجب پاک ایران تعلقات بہتر ہورہے تھے ۔ ایران نے پاکستان کے سرحدی علاقے پر حملہ کرکے پورے پاکستانی قوم کو صدمہ اور حیرت سے دوچار کرادیاہے۔ ایران کو اس بات کو سامنے رکھنا چاہیے تھا کہ پاکستان نے ایران کی سلامتی اور خود مختاری کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیا۔ پاک ایران تجارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھااور دونوں ملکوں میں مستقل تجارتی اور معاشی تعاون پر بات چیت ہو رہی تھی کہ ایران نے سارا ماحول ہی بدل دیا۔ پھر ایران کو اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے تھا کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف جس بربریت کا مظاہر کر رہا ہے اور جنگ کو پھیلا رہا ہے۔ اس ماحول میں اسے برادر اسلامی ملک پاکستان کے خلاف یہ حرکت نہیں کرنا چاہیے تھی۔ ٭٭٭٭٭٭