راشد اشرف کی آواز نے نصف صدی سے زیادہ عرصے تک سننے والوں کے ذہنوں کو اپنی گرفت میں جکڑے رکھا۔وہ بھی ایک زمانہ تھا جب مستند خبر جاننے اور سننے کے لئے ہم سب بی بی سی کی اردو سروس کے صبح و رات کے اوقات کے منتظر رہتے تھے۔اردو کی خبریں اور سیربین جیسے پروگرام اپنی پسندیدگی کے اعتبار سے سرفہرست تھے۔ان خبروں اور تجزیاتی پروگراموں میں آواز کا جادو جگانے والوں میں راشد اشرف بھی تھے جن کو سن کر یہ احساس ہوتا تھا کہ اردو ایسی زبان ہے کہ اس کے ہر لفظ کو ہزاروں انداز سے نہ صرف بر تا جا سکتا ہے بلکہ براڈ کاسٹر کی آواز کا جادو اس کے رنگ و روپ کو چار چاند لگا سکتا ہے لیکن راشد اشرف کی صورت میں ایسی آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔یہی تو براڈ کاسٹر کا کمال ہوتا ہے جو الفاظ کے بدلتے پہلو کو ایک نئی کیفیت اور احساس سے ہمکنار کر دیتا ہے۔ابلاغ کی دنیا ان سحر انگیز پراثر اور پرکشش آوازوں کے جادو سے بھری پڑی ہے۔میں خود جناب رضا علی عابدی کی آواز کا بہت بڑا فین ہوں۔ ان کی آواز میںنہ جانے کیا چسکہ تھاجب بھی خبریں یا پروگرام سیربین میں علی رضا عابدی کی آواز کانوں تک نہ پہنچتی نہ جانے پروگرام پھیکا اور بے مزا لگتا۔ آواز ایک جادوئی عمل ہے۔یہ آپ کی پہچان، اسلوب،سلیقے اور قرینے کی عکاس ہے۔ابھی کچھ دن ہوئے ضیاء محی الدین بھی رخصت ہوئے۔ یہ ان کی آواز ہی تھی جس نے انہیں بام عروج پر پہنچا دیا ۔یہ آواز ہی تو ہے جو شاعری اور نغمے کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ الفاظ کی سچائی اور گہرائی میں آواز ہیوہ طلسم ہے جو ہمارے ذہن میں ایک خوشگوار تاثر چھوڑ تی ہے، آ ہمارے ک کیف وذوق کا پتہ دیتی ہے۔الفاظ کتنے بھی رنگین‘ بانکے، سجیلے اور پرجوش ہوں آواز کے جادوئی اثر کے بغیر وہ اپنے احساس اور تاثر کی توانائی کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔راشد اشرف نصف صدی سے زیادہ عرصے سے بی بی سی اردو سروس میں اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے۔زندگی کی 90سے زیادہ بہاریں دیکھیں لیکن شاید یہ آواز کی تازدگی اور توانائی تھی جس کے سبب یہ بات شاید کسی کے گمان میں بھی نہیں تھی۔ کہ مائیکرو فون پر بے تکان بولنے والے راشد اشرف کو اچانک یوں چپ لگ جائے گی وہ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے گی جس نے نہ جانے کتنے مداحوں کو اداس کر دیا۔ہر پروگرامر‘ ہر براڈ کاسٹر ہر اینکر کا پیرا یا کتنا شگفتہ اور خوش آہنگ ہوتا ہے وہ یقینا اس کی آواز سے وابستہ پروگرام ہوتا ہے میں جب محترم شفیع نقی جامعی کو بی بی سی کی لہروں میں سنتا ہوں تو یقین جانیں یہ ان کی آواز کا انداز اور اسلوب ہوتا ہے کہ ہندی کے بعض الفاظ کی ایسی دلآویزی نکھر کر سامنے آتی ہے کہ اس زبان کو نہ جانتے ہوئے بھی عام لوگ اس کی اردو میں آمیزش کر دیتے ہیں۔ آپ شاعری کو دیکھیں جب یہ مترنم آوازیں ڈھلتی ہے تو یوں سمجھیں امر ہو جاتی ہے۔راشد اشرف 60کی دہائی کے آخری حصے میں بی بی سی سے وابستہ ہوئے تھے۔ان کا ایک خاص اسلوب تھا الفاظ کی ادائیگی میں لہجے کا اتار چڑھائو اور احساس کی لپک ساتھ ساتھ سفر کرتے تھے، بلا کی روانی اور تسلسل تھا۔ ادارے کے ساتھ اپنی دیرینہ وابستگی کی وجہ سے انہیں اردو سروس کی تاریخ لکھنے کا کام سونپا گیا جو انہوں نے پوری ذہنی عرق ریزی اور ایسی تندہی سے انجام دیا کہ دیکھ کر عش عش کرنے کو دل چاہتا ہے۔ میرے خیال میں ہمیں بھی پاکستان میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ارتقائی سفر پر ضرور کوئی ایسا کام کرنا چاہیے جو ریکارڈ کا حصہ بن جائے تاکہ ہم نے اپنے ان ابلاغی ذرائع میں جو سنگ میل عبور کئے اوور جس طرح ابھرتے ٹیلنٹس کی کاشتکاری کر کے ابلاغ کے افق پر گوہر نایاب پیدا کئے جن کام اور نام ہی ان کا تعارف ہے ریڈیو کے ابتدائی دور میں زیڈ اے بخاری ان معماروں کی صف اول میں سب سے آگے تھے دنیا کے بڑے بڑے براڈ کاسٹرز اور پروگرامرز کی طرح جن کی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ان کی آواز تھی نہ جانے انہوں نے کتنے ‘ٹیڑھے اور نکیلے الفاظ کو اپنے طرز بیان سے ایسا آہنگ اور لبادہ پہنایا کہ ان کی کایا ہی پلٹ گئی یہ آواز اور اسلوب ہی تو ہے جس کی حسن کاری نے سننے والے کو نہ صرف اپنی جانب متوجہ کیا بلکہ اسے حیران کر دیا پھر ایک اچھے براڈ کاسٹر کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اسکرپٹ میں شستہ و رفتہ الفاظ برتے جائیں۔حسن کاری کی تمام تر گنجائش پیدا کرنے کے وہ عام فہم بھی ہوں اور آسان پرائے میں ہوں۔ایک اچھے پروگرامر کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ کیفیت کو بیان کرنے کے لئے ایسے الفاظ کا استعمال کرے جیسے حسین‘ کیف آگیں‘ سحر آفریں‘ نظرفریب ،دلآویز رنگیز محشر وغیرہ چونکہ ایسے الفاظ اور تراکیب میں ایک گونہ کشش پہلے ہی موجود ہے کیونکہ ایسے دلکش الفاظ کے استعمال سے سننے والا محظوظ بھی ہوتا ہے کچھ سیکھتا بھی ہے۔ اورہمہ تن گوش رہتا ہے۔آواز کیسا جادو ہے۔دنیا کے بے شمار اداکاروں خواہ انہوں نے کسی بھی زبان کی فلموں میں کام کیا ان کی آواز نے ان کی فنکارانہ صفت میں ایک بوسٹر کا کام کیا۔ان کی آواز کے انوکھے اور منفرد انداز نے ان کی شہرت کو نہ صرف چار چاند لگائے بلکہ یہ آواز کا جادو دوسروں کے لئے مثال بن گیا۔فلم اسٹار محمد علی‘ امیتابھ بچن اور گریگری پیک جیسے فنکاروں کے لئے بھی ان کی محنت‘ ریاضت اور فنکارانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کی آواز کا طلسم سر چڑھ کر بولتا رہا ہے ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور فلم کی نگری پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ ہر دور میں متعدد براڈ کاسٹرز اپنی آواز کا جادو جگاتے نظر آتے ہیں کتنی دہائیاں گزر گئیں ہم آج بھی ریڈیو پاکستان پر شکیل احمد اور انوربہزاد کے خبریں پڑھنے کے انداز کو نہیں بھولے ۔کیا کوئی عمر قریشی‘ ‘ افتخار احمد، چشتی مجاہد کی کمنٹری کے انداز کو بھول سکتا ہے۔ آج راشد اشرف کو یاد کرنے کا دن ہے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے ، وہ باکمال براڈ کاسٹر تھے آواز کے لہجے کی طرح ان کے قلم میں بھی بلا کی روانی تھی۔ انہوں نے متعدد فیچر ترتیب دیے ،عملے میں آنے والے نوواردوں کے حوصلے بڑھانے اور تربیت کرنے میں وہ پیش پیش رہتے تھے۔جگمگاتے ستارے رخصت ہو رہے ہیں یہ سب محبت کرنے اور محبت بانٹنے والے لوگ تھے۔ضیاء محی الدین چلے گئے انہوں نے بھر پور زندگی گزاری۔راشد الغفور کو کون بھول سکتا ہے بڑے پیارے اور باکمال لوگ رخصت ہو رہے ہیں یہ سلسلہ رکنے والا نہیں جس کا وقت آ گیا اسے جانا ہی پڑے گا۔ راشد اشرف کی خوبیاں او ران کا باکمال فن ان کییاد دلاتا رہے گا اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ایسے غیر معمولی لوگوں کے ساتھ اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔