یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کوئی گڑھی ہوئی کہانی نہیں ہے کہ 1947 سے پہلے پاکستان اور بھارت میں منقسم سرزمین نہیں تھی یہ علاقہ یونائیٹڈ انڈیا کہلاتا تھا۔ پاکستان کی پہلی اسمبلی کے 53 ارکان تھے ان میں 13 غیر مسلم تھے یہ لوگ شرح میں 25 فیصد بنتے تھے گویا پاکستان کے بنانے والوں نے 25 فیصد غیر مسلموں کو مملکتِ خداداد کا حصہ تسلیم کیا تھا۔ 1951ء تک پاکستان کی کل آبادی کا 24 فیصد غیرمسلموں پر مشتمل تھا۔ ہم مسلمان 7 دھائیوں سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد آج 3 کروڑ سے بڑھ کر 24 کروڑ ہوگئے ہیں۔ لیکن پاکستان میں غیرمسلموں کی شرح 24 فیصد سے 5 فیصد پر آگئی باقی 19 فیصد کہاں چلے گئے ہمیں اِس کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہئے۔ گذشتہ دنوں ہندوستان کے شہر جام نگر میں دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک مکیش امبانی کے بیٹے کی شادی کے خوب چرچے رہے۔ دولت کی چمک دمک کسے کہتے ہیں سب نے دیکھا۔ یہ بحث بھی رہی کہ بھارت مں اڈانی، امبانی، ٹاٹا اور برلا وہ لوگ ہیں جنہوں نے بھارت کی معیشت کو ایک تابناک نہج پر ڈھالنے میں کلیدی کردار کیا۔ اور یہ کہ ہمارے ہاں اس انداز سے سرمایہ کاری کے دروازے کب اور کیونکر کھلیں گے ۔ جس نے گذشتہ دودھائیوں میں بھارت میں سرمایہ کاری کے نت نئے ریکارڈ نہ صرف قائم کئے بلکہ سینکڑوں نئے ارب پتی پیدا کیے۔ جنہوں نے مختلف شعبوں میں نہ صرف سرمایہ کاری کی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ مِل کر ایسے منصوبوں کو مکمل کیا۔ جس نے بھارت میں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کیے، اْس کی پیداواری صلاحیت میں حیرت انگیز اضافہ کیا اور ایک سو تیس کروڑ آبادی والے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا۔ اگر آپ غیر ممالک میں خدمات انجام دینے والے بھارتیوں کا مکمل ڈیٹا سْن لیں تو حیران رہ جائیں گے۔ امریکہ کی 70 بڑی کمپنیوں کے سربراہ بھارتی ہیں ،ترقی کا یہ راز پڑوسی ملک میں مواقع کی فراہمی میں مضمر رہا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف کھسکتے کیوں جارہے ہیں۔ ایک طرف ہم آئی ایم ایف اور غیر ملکی قرضوں کی بیساکھیوں کے بغیر چلنے کے قابل نہیں رہے۔ اْن کے قرضوں کی ادائیگی کے گورکھ دھندے میں اْلجھ کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے ہاں نئی صنعتیں نہیں لگ رہیں ہمارا کاروباری طبقہ لگاتار بلیک میلنگ سے تنگ آچکا ہے۔ پولیس حکام کی دھمکیاں، ایف آئی اے کی طرف سے رشوت کے بڑھتے ہوئے تقاضے، بعض صحافیوں کی طرف سے بلیک میلنگ، حکومتوں کی دھونس دھاندلی، عدالتوں کی مداخلت، سیاسی جماعتوں کی طرف سے فنڈز کا تقاضہ خفیہ اداروں کی جانب سے ملکی مفاد کے نام پر شروع کئے گئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے احکامات خود سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کے منفی ہتھکنڈے اور سب سے بڑھ کر سیاسی عدم استحکام ایسی صورتحال جسے جب اور جہاں موقع ملتا ہے باہر نکل جاتا ہے۔ اگر آپ کو ایک نظر میں اپنی معیشت کی حالت زار کا اندازہ کرنا ہو تو اپنے امپورٹ ایکسپورٹ انڈیکس پر نظرڈال لیں۔ ہماری ساری قلعی کھل جائے گی۔ آپ اپنے غیرترقیاتی اخراجات پر نظر ڈال لیں آپکو ایک مخصوص طبقے کے اللوں تللوں کی پوری کہانی سمجھ آجائے گی۔ سمجھ نہیں آتا کہ آخر ہم پر ایسا کیا عذاب نازل ہوا ہے کہ ناکامی اور شرمندگی کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں سب سے الارمنگ پہلو یہ ہے کہ ہم نے یہ ملک ایک نظرئیے کے تحت حاصل کیا تھا۔ اِس ملک میں ہم نیایک ایسا نظام قائم کرنا تھا جہاں انصاف ہو لیکن افسوس کہ ہم اب تک اپنا نظام عدل وضع نہ کرسکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ صورتحال کب تک جاری رہے گی اور ہمیں کبھی نہ کبھی تو سوچنا پڑے گا کہ اگر ہم نے اِس سبز پرچم تلے زندگی گزارنی ہے، اگر ہم نے اِس شناختی کارڈ اور اِس پاسپورٹ کے ساتھ ہی رہنا ہے تو پھر ہمیں اس نظام کو بدلنا ہوگا اور ایک ایسا نظام لانا ہوگا جس کے فیصلے آزاد بھی ہوں اور فوری بھی۔ در حقیقت ہمارے اکابرین نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ہم جس انسان کاملﷺ کے اْمتی ہیں اْن کا اصل کارنامہ ہی یہ تھا کہ آپﷺ کی دعوت نے پورے اجتماعی انسان کو اندر سے بدل دیا۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ من حیث القوم اور من حیث الانسان کامیابی کے لئے صرف دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کا کرم اور نیک نیتی سے محنت تجربے کی بنیاد پر دعویٰ کرسکتا ہوں کہ دنیا میں اللہ کے کرم سے بڑی کوئی طاقت اور محنت سے بڑا کوئی استاد نہیں ہوتا۔ دنیا میں بہت بڑے بڑے انسان پیدا ہوئے بڑے لوگ وہی ہیں۔ جنہوں نے کوئی اچھی تعلیم اور تعمیری فکر پیش کردی وہ بھی جنہوں نے اخلاق اور قانون کے نظام سوچے وہ بھی جنہوں نے اصلاح معاشرے کے لئے کام کیا۔ وہ بھی جنہوں نے اپنی ایجادات سے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ وہ بھی جنہوں نے ملک فتح کئے جنہوں نے آزادی کی قدر و حمیت کو جانا اور بہادرانہ کارنامہ کی میراث چھوڑی، ساتھ ساتھ وہ بھی ہیں جنہوں نے اعلیٰ سے اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کرکے دکھائی۔ پھر ہم پر کیا افتاد پڑی کہ ہم من حیث القوم، معاشرتی، سماجی، اخلاقی اور سیاسی طور پر دیوالیہ ہوگئے ۔ہم تو اس انسانِ کاملﷺ کے ماننے والے ہیں جن کا منفرد رنگ مسجد سے لے کر بازار تک مدرسہ سے لے کر عدالت تک اور گھروں سے لے کر میدانِ جنگ تک چھاگیا۔ جس نے ذہن بدل دئیے، خیالات کی روح بدل دی، نگاہ کا زاویہ بدل دیا۔ عادات و اطوار بدل دئیے۔ حقوق و فرائض کی تقسیم بدل دی۔ خیروشر کے معیار، حلال و حرام کے پیمانے بدل دئیے، اخلاقی قدریں بدل دیں، دستور اور قانون بدل دئیے، جنگ و صلح کے اصالیب بدل دئیے۔ معیشت اور تمدن کے اطوار بدل دئیے، ایک ایک شعبے اور ایک ایک ادارے کی کایا پلٹ دی یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے جس کی تاریخ انسان میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پھر ہم اْس انسانِ عظیمﷺکا اْمتی ہونے کے دعوے کرنے والے بد قسمت لوگ اِس بھنور میں کیوں پھنس گئے ہیں۔ یہی وہ سوال ہے جس میں ہمارے مسائل اور اضطراب کی جڑیں پیوست ہیں ۔معافی یارسول اللہ معافی۔