شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کا784واں عرس مبارک ملتان میں جاری ہے ،زائرین کے قافلے جوق در جوق ملتان پہنچے ہوئے ہیں اور مزید زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ڈپٹی کمشنر ملتان عمر جہانگیر نے عرس کے سلسلہ میں آج 25 اگست کو مقامی تعطیل کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کے باعث پہلی مرتبہ عرس کی تقریبات ان کے بغیر منعقد ہو رہی ہیں، عرس کے موقع پر جہاں لاکھوں زائرین ملتان پہنچے ہوئے ہیں وہاں ایک افسوسناک صورتحال گدی نشینی کے معاملہ پر تنازعہ کی صورت میں دیکھنے میں آئی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے مخدوم مزادہ زین قریشی جب مزار کو غسل دینے کی تقریب سر انجام دے رہے تھے، تو مخدوم شاہ محمود قریشی کے بھائی مخدوم مرید حسین قریشی وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے زین قریشی کی سخت سرزنش کرتے ہوئے زور زور سے بولنا شروع کر دیاکہ میں مخدوم سجاد قریشی کا بیٹا ہوں،تم کو مزار کو غسل دینے کا کوئی حق حاصل نہیں، یہ مزار سیاسی اکھاڑہ نہیں ہے ، میرے آبائو اجداد کی آرام گاہ ہے، اس پر مخدوم زین قریشی نے اپنے چچا کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا اور ادب سے خاموش رہے، البتہ ان کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔ اہل وسیب کو خوشی ہوتی کہ آپس میں جھگڑنے کی بجائے مخدوم صاحبان زائرین کو سہولتوں کی عدم فراہمی اور وسیب کے مسائل اور صوبے کے مسئلے پر حکمرانوں سے جھگڑتے ۔ غوث العالمین حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ ایک شخص نہیں ایک عہد کا نام ہے، آپ 27رمضان 566ھ حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد قریشی کے ہاں پیدا ہوئے ، صغیر سنی میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا ، یتیمی کی حالت میں تعلیم اور تربیت کے مراحل طے کئے اور عین جوانی میں عازم سفر سلوک بنے ۔ بغداد پہنچ کر حضرت شہاب الدین سہروردی ؒ سے روحانی فیض حاصل کیا ۔ سہروردی سئیں نے خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کو ملتان پہنچ کر دین کیلئے کام کرنے کی تلقین فرمائی ۔ ملتان پہنچ کر آپ نے تبلیغ شروع کر دی ، غیر مسلم امراء کے غیر انسانی رویوں سے نالاں لوگ جو ق در جوق حضرت کی خدمت میں پہنچ کر حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے ، آپ نے شروع میں مدرسۃ الاسلام قائم کیا اور بعد میں اسے دنیا کے سب سے بڑی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت دے دی ۔ آپ نے لوگوں کے دلوں اس طرح گھر بنایا کہ 8صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی لاکھوں انسان ننگے پاؤں اور سر کے بل چل کر آپ کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں ۔ غوث العالمین حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ نے اپنی اقامتی یونیورسٹی میں مقامی زبان ملتانی میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ مختلف عالمی زبانوں مثلاً سنسکرت ‘ بنگالی ‘ سندھی ‘ فارسی ‘ عربی ‘ جادی ‘ برمی ‘ مر ہٹی وغیرہ کے شعبے قائم کیے اور مذکورہ زبانوں کے طلباء کو تعلیم سے آراستہ کر کے وفود تشکیل دیئے اور ان وفود کو جماعتوں کی شکل میں تجارت اور تبلیغ کی غرض سے مختلف ممالک کیلئے روانہ کیا ۔ تجارت کیلئے ہزاروں اشرفیوں کی صورت میں خود سرمایہ مہیا فرماتے اور ہدایت فرماتے رزق حلال کے حصول کیلئے تجارت کرنی ہے اور خدا کی خوشنودی کیلئے لوگوں کی خدمت۔ تبلیغی وفود کو روانگی سے پہلے پانچ باتوں کی نصیحت فرماتے۔ 1۔ تجارت میں اسلام کے زریں اصول کو فراموش نہ کرنا۔ 2۔ چیزوں کو کم قیمت منافع پر فروخت کرنا ۔ 3۔ خراب چیزیں ہر گز فروخت نہ کرنا اور مقامی زبان اور رسم و رواج اختیار کرنا۔ 4۔ خریدار سے انتہائی شرافت اور اخلاق سے پیش آنا ۔ 5۔ جب تک لوگ آپ کے قول و کردار کے گرویدہ نہ ہوجائیں انہیں اسلام پیش نہ کرنا ۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ کے مدرسہ بہائیہ میں دنیا کی سب سے بڑی لائبریری موجود تھی ، لاکھوں کی تعداد میں کتابیں اس لائبریری کی زینت تھیں ، ایک روایت کے مطابق اس لائبریری میں سینکڑوں قرآنی نسخے ایسے تھے جو ’’ آب زر ‘‘ یعنی سونے کے پانی سے لکھے گئے تھے مگر یہ صدیوں پرانی روایت چلی آ رہی ہے کہ ہر ’’ ہلاکو ‘‘ حملہ آور کا پہلا نشانہ وہاں کی کتابیں ، وہاں کے علمی ادارے ہوتے ہیں ، حملہ آوروں نے لائبریوں اور کتب کو جلادیا ، دربار شریف پر عظیم الشان لائبریری کے قیام سے یقینا زکریا سئیںؒ کی روح خوش ہو گی ۔حضرت بہاؤ الدین زکریا ؒ کو اپنی ( ملتانی ) سرائیکی زبان سے اس قدر پیار تھا کہ وہ خط و کتابت سرائیکی میں فرماتے تھے ۔ اس سلسلے میں مخدوم حمید الدین حاکم اور بہاؤ الدین زکریا سئیں ؒ کے درمیان ہونے والی منظوم سرائیکی خط و کتابت ’’ تئیں نہ مُتیاں گاجراں اساں نہ بھیجے بیر ‘‘ نہایت ہی اہم حوالہ ہے اس سے یہ ثابت ہوا کہ آج سے آٹھ سو سال پہلے نہ صرف سرائیکی شاعری بلکہ سرائیکی کی مقبول ترین صنف ’’ ڈٖوہڑہ ‘‘ بھی مقبول اور دلپذیر تھا ، آج حضرت بہاؤ الدین زکریا سئیںؒ کی اُسی سرائیکی زبان کی عظمت بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملتان کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ، ملتان کی قدامت پر غور کریں تو اس میں پورا جہان سما سکتا ہے ، موہنجودڑو اور ہڑپہ، ایسے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں آباد شہر آباد گردش ایام کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے، شیخ الاسلام حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کو اپنے شہر سے کتنی محبت تھی؟ وہ فرماتے ہیں: ملتان ماء بجنت اعلیٰ برابر است آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کنند ملتان کے بارے جس ہستی نے یہ لافانی شعر کہا وہ ہستی خود کیا تھی ؟ اس کا اپنا مقام اور مرتبہ کیا تھا ؟ اور اس نے انسانیت کیلئے کیا کیا خدمت سر انجام دیں ؟ اس بات کی تفصیل ایک مضمون میں نہیں بلکہ کئی کتابوں کی صورت میں پوری کر سکتی ہے ،آج زکریا سئیں کو نئے سرے سے جاننے اور دریافت کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ کام تحقیقی اداروں ، محکمہ اوقاف خصوصاً زکریا سئیں کے نام سے موسوم بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کو سر انجام دینا چاہئے مگر اس ستم ظریفی کو کیا کہا جائے کہ زکریا یونیورسٹی نے آج سے بہت عرصہ پہلے ایک زکریا چیئر قائم کی اور اسے غلاف پہنا کر الماری میں رکھ دیا ، نہ فنڈ نہ سٹاف اور نہ کوئی کام ، اردو میں اسے کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا ،۔