جب تیرہ جماعتی اتحاد ، میاں شہباز شریف کی قیادت میں اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھا تھا تو خارجہ امور کا بوجھ بلاول بھٹوزرداری کے جوان کندھوں پر آن پڑھا تھا۔ اس سے پہلے یہ ذمہ داری سابق وزیر اعظم نے اضافی طور پر اپنے پاس رکھی ہوئی تھی۔ وہ شاذ ونادر ہی کہیں جاتے۔ یوں بہت سے محاذ کھل گئے تھے اور نئے وزیر خارجہ کو ان کی ذمہ داریاں محو پرواز ہی رکھتی تھیں۔ حکومت کو آئین سازی کی فکر تھی۔ پچھلے ساڑھے تین سالوں میں نیب کے ہاتھوں اس کی اچھی خاصی درگت بنی تھی، اس کے پر کاٹنے کا وقت آگیا تھا۔ خوش قسمتی سے حریف اقتدار سے ہی نہیں ، قومی اسمبلی سے بھی نکل گیا تھا۔ اس نے مخالفین ، جو اس کی حکومت کو ناجائز کہتے تھے، پارلیمان کی حدتک ہی کھلا میدان دینے پر بس نہیں کی بلکہ اس نے دو صوبوں میں قائم اپنی حکومتیں بھی اپنے ہی ہاتھوں سے گرادی تھیں۔ صوبائی انتخابات آئین کی رو سے لازم تھے، عدالت کا اصرار بھی یہی تھا لیکن نہیں ہوئے۔ احتجاج کے راستے پر چلی تو بغاوت کی آغوش میں جاگری۔ تیرہ جماعتی ٹولہ واپس جاچکا، پختونخواہ اور پنجاب کی حکومتیں اپنے مقررہ وقت کب کا پھلانگ چکیں ، وفاق میں بھی عبوری حکومت کی مدت ختم ہونے کو ہے لیکن عام انتخابات کب ہونگے ، کوئی پتہ نہیں۔ دوسری طرف، نیب کا قانون عدالت نے بحال کردیا ہے اور وراثتی جماعتوں کی قیادت پر قائم کیس دوبارہ کھل چکے ہیں۔ سابق وزیر خارجہ کو اب عام انتخابات کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ بار بار کے مطالبے پر جواب ندارد۔ فرماتے ہیں صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ جس کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ ایسے میں میاں نواز شریف جو اپنے بیرون و اندرون ملک اثاثوں کی تفصیل مہیا نہ کرنے کی بنیاد پر جیل میں تھے اور اپنی صحت کی خرابی کی بنیاد پر چار ہفتوں کی چھٹی پر لندن گئے اور پورے چار سال نہ لوٹے، اب طمطراق سے واپس آگئے ہیں۔ انکے آنے سے پہلے ہی انہیں عبوری ضمانت مل گئی ،انہوں نے ایک جمِ غفیر سے خطاب کیا اور واپس جیل جانے کی بجائے جاتی امرا جا بیٹھے۔ سیاسی ڈرامے کا اگلا سین کیا ہوگا، جب اعتزاز احسن جیسے آئینی ماہر ، جو کہتے تھے کہ نواز شریف کبھی واپس نہیں آئیں گے، نہیں بتا سکتے تو ہم کس باغ کی مولی ! ہم تو عوام کا حصہ ہیں اور اس بات پر ہمیں فخر بھی ہے کہ جب نوے کی دہائی سے جاری اشرافیائی جمہوریت کے ڈرامے کا ڈراپ سین احتساب پر آن رکا ہے، ہمیں کوئی کھٹکا نہیں۔ تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں، بس! اشرافیائی سیاست کی علمبردار وراثتی جماعتیں آزاد معیشت پر ایمان تو لائیں لیکن ریوڑیاں بانٹیں اپنوں میں۔ اس خلا سے عمداً غفلت کا مظاہرہ کیا گیا جہاں احتسابی اداروں اور مقامی جمہوریت کو کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ نوے کی د ہائی کے آغازمیں عالمی مالیاتی اداروں کے اشارے پر جب عوامی خدمات سے منسلک معاشی اداروں کی باگ ڈور شتر بے مہار نجی شعبے کے حوالے ہی نہ کی گئی بلکہ منافع اور سرمائے کی بیرون ملک اڑان پر بھی پابندی ہٹادی گئی ۔ پہلے سے عدم مساوات کے شکار معاشرے میں ایک ایسی دنیا وجود میں آگئی جس میں سرمایہ دار کی لالچ کو کھلی چھوٹ دے دی گئی تھی۔ یہ ستم ظریفی تو ہی تھی کہ اس زمانے میں احتساب کے ادارے موجود تھے لیکن صارفین سرمایہ داروں سے جڑے مفادات کے جال میں پھنس گئے۔ نتیجے میں اجارہ داریوں نے جنم لیا۔ یہ کوئی جدت پسند مفادات نہیں تھے بلکہ قدامت پرست تھے۔انہوں نے آپس میں جتھے بنالیے، معیشت کو تہہ و بالا کیا، مراعات لیں اور نئے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کی۔ منافع باہر بھیج دیا اور خسارہ قومی خزانے پر ڈال دیا۔ سول حکومتیں یا تو انہیں تحفظ فراہم کرتی رہیں یا پھر اپنے اپنے صوبوں میں اپنی اپنی پارٹیوں کو مستحکم۔ اسی طرح کی ویرانی مقامی حکومتوں کے حصے میں بھی آئی۔ یہ ادارے نوکر شاہی کے ہاتھوں آندھی میں پتوں کی طرح بہہ گئے لیکن طوفانکے نتیجے میں، کچھ اور ہی ابھر کر سامنے آیا. پولیس، جو کبھی ڈپٹی کمشنر کے ماتحت تھی، خود مختار ہوگئی۔ طاقت کا ایک عجیب ہائبرڈ، آدھا تیتر، آدھا بٹیر، نظام ابھرا۔ ماحولیات کے لیے خود مختار کمیشن بن گئے اور سماجی بہبود کا تصور ہوا میں تحلیل ہوگیا۔ ترقیاتی کام اب صوبائی اور قومی اسمبلیوں کینمائندوں کی صوابدید پر چلا گیا۔ مرکزی علاقوں سے دور صوبائی مراکز میں براجمان وزرائے اعلیٰ جس خطے کو چاہیں نواز دیں، چاہیں تو محروم رکھیں۔اجارہ داریوں نے صرف کاروبار کی دنیا کو ہی متاثر نہیں کیا۔نوے کی دہائی میں ایک دوسرے کی دشمن سرفہرست دو سیاسی جماعتوں (مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی) نے میثاق جمہوریت کے ذریعے پنجاب اور سندھ پر ایک دوسرے کا تسلط مان لیا۔ صوبائی خودمختاری کے تناظر میں وفاقی حکمرانی کا پینڈولم ان دو پارٹیوں کے درمیان ادھر ادھر جھومتا رہا۔ سیاسی منظر نامے میں یہ ڈرامہ موسموں کی طرح باقاعدگی کے ساتھ سامنے آیا۔ ایک پارٹی اقتدار کے سنگھاسن پر چڑھتی تو اسکی اتحادی بڑی خوش اسلوبی سے اپوزیشن کا لبادہ اوڑھ لیتی۔ یہ دو جماعتی نظام محض اتفاق نہیں تھا۔ ایک رجعت پسند سوچ کا گہرا عکس تھا۔ایک ان کہی دانش، ایک غیر تحریری معاہدینے انکے قول و فعل کی راہنمائی کی۔ اداروں کے سربراہوں کی تقرری لیکر عبوری حکومتوں کی تشکیل تک سب سرگوشیوں اوررازداری کے لبادے میں لپٹا ہوا تھا۔ یہ ایک ایسی داستان تھی جو محض سیاست سے بالاتر تھی اور یہ ہماری قومی سفر کی کہانی کا ایک اہم باب بن گئی۔ لیکن یہ کہانی احتساب کے سوال پر رکی ہے۔ تبدیلی کی لہر آئی تھی تو وہ بھی اب ماند پڑچکی ہے۔ نئی سیاسی پارٹی کی بات ہورہی ہے لیکن بے لاگ احتساب نہ ہواتو معاملات آگے بڑھنے والے نہیں۔ میاں نواز شریف نے مینار پاکستان پر کھڑے ہوکر ووٹ کو عزت دو والی بات نہیں کی بلکہ سوال اٹھایا ہے کہ جب انکی حکومت ملک کو خوشحالی کی شاہراہ پر تیزی سے رواں دواں تھی تو انہیں آخر کیوں نکالاگیا۔ اب جب ان کے خلاف قانون حرکت میں آئے گا تو امید یہی ہے کہ عدل کے تقاضے پورے ہونگے۔ تاہم عدالتی کاروائی میں اس سوال کو ضرور سامنے رکھا جائے کہ آخر اس "خوشحالی "کے سفرمیں عوام کو شامل کیوں نہیں کیا گیا۔