سوشل میڈیا پر وائرل ویڈ یو ہے جس میں ملتان کا ایک یوٹیوبر ڈپٹی کمشنر ملتان کیپٹن رضوان قدیر کے حوالے سے منفی پراپیگنڈا پھیلا رہا تھا۔پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کیلئے پی ایس ایل کیذریعے دنیا بھر کو مثبت پیغام دیا جاتا ہے ۔پی ایس ایل کے کامیاب ،محفوظ اور پرامن انعقاد کیلئے پاکستان کرکٹ بورڈ،پولیس اور ڈپٹی کمشنر کا عملہ دن رات ایک کیے ہوتے ہیں۔لیکن کچھ شر پسندیوٹیوبر معمولی فائدے کیلئے قومی وقار اور سلامتی بھی دائو پر لگانے کو تیار ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے تعلیم کی کمی اور قابلیت نہ ہونے کے باعث ناکام افراد بیوروکریسی کو گالی دیناآسان ہدف سمجھ کر جو منہ میں آئے کہہ دیتے ہیں۔سوشل میڈیا نیوز چینلز کے نام پر جعل سازی عام ہے۔ایسے نام نہاد صحافی اور جعل ساز ’’فیک ٹی وی چینلز‘‘ کے سی ای او اور چیئرمین بنے ہوئے ہیں جن کو کوئی رجسٹرڈ اخبار یا ٹی وی چینل اپنارپورٹر بھی نہ بنائے۔گھر بیٹھ کر سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کرنا ہر کسی کا حق ہے لیکن کوئی بھی سوشل میڈیا نیوز چینل نہ تو پریس کارڈ جاری کرسکتا ہے اور نہ ہی میڈیا لوگو استعمال کرسکتا ہے۔غیرقانونی پریس کارڈز اور ’’چینل لوگو‘‘ استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے۔رجسٹرڈ اخبار اور ٹی وی چینلز ایک مستند اور ذمہ دار پلیٹ فارم ہیںاس لیے بلاتحقیق و تصدیق کوئی بھی خبر نہیں چلاتے جبکہ سوشل میڈیا کے ارسطو حضرات فیک نیوز کیلئے فیس بک ،یوٹیوب،ٹویٹر اور واٹس ایپ گروپس کا سہارا لیکر منفی پراپیگنڈا کررہے ہوتے ہیں۔ فیک نیوز کی بہتات کے باعث سوشل میڈیا کو قابل اعتبار سورس نہیں سمجھا جا سکتا۔سوشل میڈیا قوانین کے حوالے سے چین، روس، ترکی، ایران، سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک میں سخت قوانین نافذ ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے قانون کے مطابق ایسی اشاعت جو ریاستی مفادات ، سلامتی، خودمختاری ، امن عامہ ، خوشگوار تعلقات کو نقصان پہنچا سکتی ہو، نفرت کے جذبات کو ہوا دے، کسی بھی ریاستی اتھارٹی یا ادارے پر عوام کے اعتماد کو کم کرے ایسی اشاعت کرنے والے کو تین لاکھ درہم سے ایک کروڑدرہم تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کے ان دہشت گردوں کو لگام دینے کیلئے سائبر کرائم پر قانون سازی کی گئی۔سائبر کرائم ایکٹ کے مطابق کسی فرد کے بارے میں غلط معلومات اور پروپیگنڈاپھیلانے والے کیلئے دس لاکھ جرمانہ اورتین سال قید کی سزا ہے۔ تصویر،آڈیو یا ویڈیو متعلقہ شخص کی اجازت کے بغیر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شائع کرنے والے کو ایک سال تک قید اور دس لاکھ تک جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی دی جاسکتی ہیں۔ سیکشن 17اور 18کے مطابق سیاستدانوں کی کارٹون، بلاگ اورتجزیہ میںتضحیک کرنا بھی قابل گرفت جرم ہے۔اسی طرح مذہبی منافرت اورملکی مفاد کے خلاف کوئی مواد شائع کرنے اورخوف و ہراس پھیلانے والے کوپانچ کروڑتک جرمانہ اور 14سال کیلئے سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے۔سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کسی بھی خلاف ورزی کے مرتکب شخص کو بغیر وارنٹ کمپیوٹر،لیب ٹاپ،موبائل فون اور کیمرہ وغیرہ تحویل میں لیکر گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ بحیثیت محب وطن شہری ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم منفی پروپیگنڈااور اشتعال انگیز مواد پھیلانے والے ایسے تمام شر پسندعناصر کی فوری شکایت درج کروائیں تا کہ سوشل میڈیا سے ان دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن ہو سکے جو اپنی ذہنی غلاظت کے ہاتھوں مجبور ہوکر شرفاء کی پگڑیاں اچھال رہے ہیںاورمنافرت پھیلارہے ہیں۔سکیورٹی اداروںکی جانب سے متعددبار اس بات کااظہارکیاگیاہے کہ ان اداروں کاسیاست سے کچھ لینا دینا نہیں لیکن اس کے باوجود کچھ افراد اپنے مخصوص ایجنڈے کے تحت پروپیگنڈا کرنے سے باز نہیں آتے۔ الزام تراشیوں کاسلسلہ مسلسل جاری ہے۔سوشل میڈیا خاص طور پر ٹویٹر اور یوٹیوب پرسنگین الزامات اور من گھڑت تجزیوں کی بھرمار ہے۔ جعلی ناموں،وی پی این اور بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے اکاؤنٹس سے ہر روز افواج پاکستان و اداروں کے خلاف جھوٹی خبریں پھیلائی جاتی ہیں، فیک ٹرینڈز بنائے جاتے ہیں۔حد تویہ ہے کہ سینئر افسران و محترم شخصیات کے نام سے فیک اکائونٹس بنا کر ان سے بھی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے ۔اس جرم پراب تک کئی منظم گروہ پکڑے جاچکے ہیں۔ اس کے برعکس بین الاقوامی میڈیا کے پروگرام آن ائیر ہونے سے قبل تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ پروگرام ملک کی سلامتی کے خلاف تو نہیں، مذہبی ومسلکی منافرت پر مبنی تو نہیں،کسی کمیونٹی کی دل آزاری کا باعث تو نہیں۔ یہاں آوے کاآوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ریٹنگ کی ہوس اِس قدر بڑھ چکی ہے کہ اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا ہے،صحافتی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ دوسروں کی آزادی سلب کرلیں اور آزادی ِ صحافت کی آڑمیںمعززین کو بدنام کرنے کے درپے ہوجائیں۔ سائبرجرائم کی روک تھام کے لیے قوانین توہیں لیکن ان پرعمل درآمد کروانے کے لیے موجود اتھارٹی کے پاس وسائل بہت کم ہیں، سائبرکرائم کاسراغ لگانے کے لیے جدیدڈیجیٹل فرانزک لیب کاقیام بھی بے حد ضروری ہے۔پروفیشنلی ٹرینڈ ججز نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان عدالت سے ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سائبر کرائم کیلئے الگ سے ججز مقرر ہونے چاہئیں جو خود سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کو سمجھتے ہوں ،اس اقدام سے یقینی طور پر سماجی اور اخلاقی اقدار کو پامال کرنے والے سوشل میڈیا کے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاسکے گا۔