حضرت امام حسین ؑ کی شان میں کہنا اتنا ہی کافی ہے کہ حضرت سلیمان فارسی فرماتے ہیں کہ ’’میں نے نبی کریمؐ سے سنا ہے امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ میرے بیٹے ہیں اور جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا ، اس نے مجھے محبوب رکھا ‘‘۔ یہ بھی دیکھئے کہ نبی کریم ؐ اپنی مبارک پشت پر دونوں شہزادوں کو سوار کئے ہوئے ہیں اور ساتھ فرما رہے ہیں کہ ’’ اگر سواری عمدہ ہے تو سوار کتنے اچھے ہیں ۔ ‘‘ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ’’ ایک بار حضور کریمؐ نے حضرت بی بی فاطمہؑ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم عورتوں کی سردار ہو اور تمہارے بیٹے جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں ‘‘ ۔ محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ ہے ، اس ماہ کو شہدائے کربلا کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے،اسلامی تاریخ میں اس مہینے کی بہت زیادہ عظمت ہے ، اس پورے مہینے کو شہدائے کربلا کی یاد منانے کے ساتھ ساتھ وسیب میں یہ بھی ہوتا ہے کہ مسلمان ’’شہر خاموشاں‘‘ کی طرف جاتے ہیں اور پہلی محرم سے 10 محرم تک قبروں کی لپائی کی جاتی ہے، لواحقین قبرستانوں میں جا کر فاتحہ خوانی کرتے ہیں ‘ نذر نیاز اور طعام تقسیم ہوتا ہے ‘ کھجور کے پتے ‘ دالیں ‘ خوشبودار پانی اور پھول کی پتیاں قبروں پر نچھاور کی جاتی ہیں‘ اگر بتیاں جلائی جاتی ہیں ، ان دنوں مستری مزدور بہت مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ رسومات ایک طرح سے اسلامی ثقافت کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں۔ محرم الحرام کے موقع پر قبرستان جانے پر اعتراض نہیں لیکن یہ کام وہ ہیں کہ جو ہر وقت ہو سکتے ہیں اور پورا سال فاتحہ کیلئے قبرستان میں آنا جانا رہنا چاہئے ، قبرستان جانے کے مقاصد بھی فراموش نہیں کرنے چاہئیں ، موت بر حق ہے مگر ان کاموں کے بارے میں سوچنا چاہئے جو موت کو بھی مار دیں اور ہمیشہ یاد رکھے جائیں ۔ کربلا کا واقعہ تاریخ اسلام کا المناک واقعہ ہے، اس واقعہ کا پیغام باطل قوتوں سے ٹکرا کر حق و صداقت کا علم بلند کرنا ہے اور غمِ حسین کو طاقت بنا کر آگے بڑھنا ہے۔ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنی ہے، امریکا، اسرائیل ، بھارت گٹھ جوڑ مسلمانوں کے خلاف ہے، ان حالات میں مذہب اسلام کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، فرقہ واریت سے بچنا ہے ، فرقہ واریت کے نام پر اسلام اور پاکستان کا بہت نقصان ہو چکا ہے۔ سرکاری طور پر فرقہ واری کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ علماء ، زاکرین اور گدی نشینوں کو خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنا ہوگی ۔واقعہ کربلا کے واقعات پڑھیں تو ایک ایک بات ہمارے لئے سبق اور مشعل راہ ہے ۔ کربلا کی جنگ میں خواتین کا کردار بھی لازوال اور بے مثال ہے ۔ یوم عاشور کے دوران حضرت امام حسینؓ کے قافلے سے 21 خواتین اسیر ہوئیں جن میں سے غیر ہاشمی اور بنی ہاشم قبیلے کی خواتین شامل تھیں ۔ شام ، کوفہ کے بازاروں میں حضرت زینبؓ کے خطبات نے لوگوں کے ذہنوں میں آپ کے والد حضرت علیؓ کے خطبات کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ باطل قوتوں کے ساتھ ٹکرانے کیلئے خواتین کو بھی میدان میں آنا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ فرقہ واریت سے بچنے کی ضرورت ہے۔ وسیب کے قدیم مرکز ملتان میں عزاداری اور مرثیے کی روایت بہت قدیم ہے ۔ مورخین اس پر لکھتے ہیں کہ خطہ ملتان میں عزاداری اس وقت شروع ہو گئی تھی جب واقعہ کربلا کے بعد دت قوم کے کچھ لوگ حضرت امام حسینؓ سے عقیدت رکھنے کے باعث وہاں مظالم کا شکار ہوئے اور عراق سے نکال دیئے گئے ۔ یہ لوگ عربی النسل تھے ۔ یہ لوگ 681 ء کے لگ بھگ ایران کے راستے ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آ کر آباد ہوئے ۔ ملتان شروع سے ہی محبت کرنے والا خطہ ہے، پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہوا، ملتان کے باسیوں نے اسے اپنا درد سمجھا۔ دنیا میں پیش آنے والے ہر سانحے کو اپنا سانحہ سمجھا ۔ ظلم کا شکار کوئی بھی قوم ہجرت کر کے آئی ، اہل وسیب نے محبت دی ۔ ایک روایت اور بھی ہے وہ یہ کہ وہ لوگ جو ظلم کا شکار ہو کر عراق سے ایران کے راستے اس علاقے آئے ، یہاں کے کلچر اور یہاں کی زبان سے مانوس ہوئے ، یہیں سے سرائیکی مرثیہ کی روایت بنی ۔ عزا داری کی جب بھی تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں ملتان کے استاد شاگرد کے تعزیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکے گا، ان تعزیوں کی اپنی الگ ایک تاریخ اور ثقافت ہے، محرم کے آنے سے پہلے ہی ملتان میں ان کی تزئین و آرائش کا کام شروع ہو جاتا ہے اور محرم الحرام کے آغاز میں ان تعزیوں کو زیارت کے لئے رکھ دیا جاتا ہے جہاں ایام عاشور کے موقع پر بڑی تعداد میں عزاداری کے جلوس نکالے جاتے ہیں ۔ اس سال یوم عاشور پر ملتان شہر میں تعزیے کے 117 جلوس برآمد ہوں گے ، ان تعزیوں میں نمایاں مقام استاد اور شاگرد کے تعزیوں کو حاصل ہے، ان میں سے استاد کا تعزیہ تقریباً190 سال پرانا ہے جبکہ شاگرد کا اصل تعزیہ تقریباً163سال پرانا ہے، جو حسن و جمال ، نقش و نگار اور نفاست میں اپنی مثال آپ ہیں ، ان دونوں تعزیوں کی تزئین و آرائش کا کام مکمل ہوتے ہی لائسنس داروں نے زیارت کیلئے رکھ دیا ہے ، لکڑی پر کندہ کاری اور چوب کاری کے ماہر استاد پیر بخش نے حضرت امام حسین ؑ سے عقیدت کے اظہار کے لئے 1833ء میں چنیوٹ کے 12 کارگیروں کی مدد سے پانچ سال کی مدت میں 70 من وزنی تعزیہ تیار کیا تھا، استاد کا تعزیہ مکمل طور پر ہاتھ سے بنا ہوا ہے اور اپنی اصل حالت میں موجود ہے، اس تعزیے کی ہر منزل کئی چھوٹے بڑے ساگوان کی لکڑی کے ایسے ٹکروں سے بنی ہے جو محرابوں، جھروکوں ، گنبدوں اور میناروں پر مشتمل ہیں، استاد کے تعزیتے میں کوئی کیل استعمال نہیں کی ہوتی بلکہ مختلف حصوں کو ایک دوسرے میں پیوست کر کے فن کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔